رسائی کے لنکس

دوپاکستانی خاتون کوہ پیماؤں کا پہلی مرتبہ کے ٹو سر کرنے کا اعزاز


 ثمینہ بیگ نے یہ چوٹی اپنی ٹیم کے ہمراہ سر کی اور یہ اعزاز حاصل کیا۔(فائل فوٹو)
ثمینہ بیگ نے یہ چوٹی اپنی ٹیم کے ہمراہ سر کی اور یہ اعزاز حاصل کیا۔(فائل فوٹو)

ثمینہ بیگ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کےٹو سرکرنے والی پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما بن گئی ہیں۔ انہوں نے یہ چوٹی اپنی ٹیم کے ہمراہ سر کی اور یہ اعزاز حاصل کیا۔

پاکستانی کوہ پیما ثمینہ بیگ کے بھائی مرزا عل بیگ نے بتایا ثمینہ بیگ نے اپنی ٹیم کے دیگر ارکان عید محمد، بلبل کریم، احمد بیگ، رضوان داد، وقار علی اور اکبر حسین سدپارہ کے ہمراہ جمعہ کی صبح 7 بج کر 42 منٹ پر کے ٹو کو سر کیا جس کی بلندی 8 ہزار611 میٹر ہے۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیرِاعظم شہباز شریف کی جانب سے ثمینہ بیگ کو کے ٹوسر کرنے پر مبارک باد دی ہے۔

شہباز شریف نے ٹوئٹر پر ایک ٹویٹ میں کہا کہ "ثمینہ بیگ پاکستانی خواتین کے عزم و ہمت اور بہادری کی علامت بن کر ابھری ہیں۔ "

وزیرِاعظم کے مطابق ثمینہ بیگ نے یہ ثابت کیا کہ پاکستانی خواتین کوہ پیمائی کے صبر آزما کھیل میں مردوں سے پیچھے نہیں۔ امید ہے ثمینہ بیگ دنیا بھر میں پاکستان کا پرچم اسی جذبے سے لہراتی رہیں گی۔

واضح رہے کہ ثمینہ بیگ کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ کے دور افتادہ علاقے ششمال سے ہے۔

انہوں نے 2013 میں دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایوریسٹ سر کرنے کا اعزا ز حاصل کیا تھا جب کہ وہ سات براعظموں میں سات چوٹیاں سر کرکے پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما ہونے کا اعزاز بھی حاصل کرچکی ہیں۔

ثمینہ بیگ کی جانب سے کے ٹو سر کرنے کے چند لمحوں بعد ایک اور پاکستانی خاتون کوہ پیما نائلہ کیانی نے بھی سرباز خان اور سہیل خان کے ہمراہ کے ٹو کو سر کرلیا۔

نائلہ کیانی کا تعلق ضلع راوالپنڈی سے ہے۔وہ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک بینکر ہیں اور دبئی میں مقیم ہیں۔

انہوں نے گزشتہ سال 8035 میٹر بلند گاشربرم ٹو نامی چوٹی سر کر کے پاکستان میں آٹھ ہزار میٹر بلند چوٹی سر کرنے والی پہلی خاتن کوہ پیما ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

'ثمینہ بیگ اور نائلہ کیانی کی کامیابی سے کوہ پیمائی کو فروغ ملے گا'

پاکستان میں کوہ پیمائی کے شعبے کے فروغ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'الپائن کلب آف پاکستان' کے مطابق ثمینہ بیگ اور نائلہ کیانی کی کامیابی کے بعد پاکستان میں کوہ پیمائی کو مزید فروغ ملے گا۔

الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل کرار حیدری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس سال تقریباًً 1400کوہ پیماہ گلگت بلتستان میں موجود ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔

کرار حیدری کے مطابق کے ٹو کے نواح میں موسم صاف ہے اور وہ توقع کرتے ہیں کہ جمعہ کی شام تک سو کے قریب کوہ پیما دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کو سر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ خوش آئند ہے کہ پاکستانی کوہ پیماؤں کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور ایران سے تعلق رکھنے والی خواتین کوہ پیماؤں نے بھی کے ٹو کی چوٹی سر کرلی ہے۔

کرار حیدر کے مطابق کےٹو کو سر کرنے کا سلسلہ گزشتہ شب 10 بج کر 40منٹ پر شروع ہوا جب پانچ نیپالی شرپا نے اس سیزن کی کے2 مہم جوئی اپنے نام کی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کے ٹو پر آٹھ ہزار میٹر کی بلندی پر برف بہت زیادہ نرم ہوتی ہےاور یہ فیز مہم جوئی کا سب سے خطرناک ہوتا ہے۔البتہ نیپالی کوہ پیماؤں نے وہ مرحلہ بریک کیا اور ان کی کوششوں کے باعث دیگر کوہ پیما بھی اب اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ چوٹی سے نیچے اترنے کا مرحلہ سب سے خطرناک ہوتا ہے اور زیادہ تر کوہ پیماؤں کی ہلاکتیں نیچے آتے ہوئے ہی ہوئی ہیں۔ان کے بقول اب تک 90 سے زائد کوہ پیما نیچے اترتے ہوئے ہلاک ہوچکے ہیں۔

گزشتہ روز کےٹو مہم جوئی کے دوران ایک افغان کوہ پیما کی ہلاکت کی اطلاعات بھی موصول ہوئی تھیں۔ البتہ کرار حیدر کے مطابق وہ ان خبروں کی تصدیق نہیں کرسکتے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال موسم سرما میں کے ٹو سر کرنے کی کوشش میں پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما باٹل نیک کے قریب لاپتا ہو گئے تھے۔

XS
SM
MD
LG