رسائی کے لنکس

مولانا کو ’فادر آف طالبان‘ کیوں کہا جاتا تھا؟


جمعیت علماٴ اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو نامعلوم حملہ آوروں نے راولپنڈی میں ان کے گھر کے اندر گھس کر ہلاک کیا۔

راولپنڈی پولیس کے مطابق، مولانا سمیع الحق بحریہ ٹاؤن میں سفاری ون ولاز میں اپنے گھر پر موجود تھے، جب نامعلوم حملہ آور گھر میں داخل ہوئے اور چھریوں کے وار کرکے ان پر قاتلانہ حملہ کیا جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوئے۔

مولانا سمیع الحق 1937 میں اکوڑہ خٹک میں مولانا عبدالحق کے گھر میں پیدا ہوئے جن کا شمار تحریک آزادی کے بڑے بڑے راہنماؤں میں ہوتا تھا۔ مولانا سمیع الحق نے اپنی مذہبی تعلیم اپنے والد کے قائم کردہ دارالعلوم حقانیہ میں حاصل کی۔

مولانا سمیع الحق مذہبی اسکالر، عالم اور سیاست دان تھے۔ وہ اپنے والد کے قائم کردہ دارالعلوم حقانیہ کو کئی دہائیوں سے چلا رہے تھے جو پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں اکوڑہ خٹک میں قائم ہے۔

مولانا سمیع الحق کا شمار جمعیت العلماء اسلام کے بڑے راہنماؤں میں ہوتا تھا جنہوں نے بعد میں جمیعت العلماء اسلام درخواستی گروپ بنایا۔ اس گروپ کا نام تحریک آزادی کے سینیر راہنما مولاناعبداللہ درخواستی کے نام پر رکھا گیا تھا جسے بعد میں تبدیل کر کے جمعیت العلماء اسلام (س) رکھ دیا گیا۔

وہ اسلامی جمہوری اتحاد کے بانی بھی تھے جو پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ایما پر 1988 کے الیکشن کے بعد سابقہ وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف وجود میں لایا گیا تھا۔

وہ دار العلوم حقانیہ کے کئی دہائیوں سے مہتمم تھے جہاں افغان طالبان کے بانی ملا عمر، حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی، سراج الدین حقانی سمیت کئی افغان طالبان کے جنگجو زیرتعلیم رہے اور یہی وجہ تھی کہ افغان طالبان مولانا سمیع الحق کو قدر کی نگا ہ سے دیکھتے تھے اور اسی وجہ سے مولانا سمیع الحق فادر آف طالبان کے نام جانے جاتے تھے۔ ان کی پارٹی جمیعت العلماء اسلام پچھلے تین سال سے پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی تھی اور صوبے میں تحریک انصاف کی پچھلی حکومت نے ان کے مدرسے کے لئے تین سو ملین روپے دیئے تھے۔

1985 میں مولانا سمیع الحق پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ سابق ڈکٹیٹر ضیاالحق کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ وہ ان راہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے افغانستان پر سابق سوویت یونین کی چڑھائی کی نہ صرف مخالفت کی تھی بلکہ اس کے خلاف ہونے والے جہاد کی کھل کر حمایت بھی کی تھی۔

افغان جہاد کے دوران مولانا سمیع الحق نے افغان طالبان کے تمام گروپس، خاص طور پر پروفیسر صبغت اللہ کے گروپ نیشنل لیبریشن فرنٹ اور مولانا محمد نبی محمدی کے گروپ حکارت اسلامی افغانستان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھے۔ حکارت اسلامی افغانستان کے قیام کے بعد مولانا سمیع الحق کو فادر آف طالبان کا لقب ملا۔

مولانا سمیع الحق 1985 سے 1997 تک پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے دو دفعہ رکن بھی رہے۔ وہ 2002 میں بھی ایوان بالا کے رکن منتخب ہوئے اور 2008 تک اس عہدے پر رہے۔

وہ 2001 میں وجود میں آنے والی افغانستان دفاع کونسل کے چیئرمین رہے اور بعد میں 2012 میں وجود میں آنے والی دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین بھی بنے، جو پاکستان کے راستے افغانستان میں امریکی فوج کے لیے سامان لے جانے والے کنٹینرز اور پاکستان کے اندر امریکی ہوائی اڈے کی مخالفت میں وجود میں آئی تھی۔ وہ متحدہ مجلس عمل کے بانی رکن تھے اور 2001 سے لے کر 2006 تک سینیر نائب صدر رہے۔

2013 میں جب خیبر پختونخوا اور فاٹا کے علاقوں میں طالبان نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پر پابندی لگائی تھی۔ مولانا نے آگے بڑھ کر نہ صرف پولیو ویکسی نیشن کے حق میں فتویٰ دیا بلکہ خود مہم میں حصہ بھی لیا۔

پچھلے مہینے کے شروع میں افغان حکومت کے ایک وفد نے ان سے اکوڑہ خٹک میں ملاقات کی تھی جس میں ان سے افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کی کوششوں میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔

XS
SM
MD
LG