رسائی کے لنکس

سعودی خواتین مرد سرپرست کی اجازت کے بغیر تنہا رہ سکیں گی


سعودی کورٹ اب اس نوعیت کے کوئی کیسز نہیں سنے گی جس میں خاندان یا سرپرست کی جانب سے کسی بالغ لڑکی یا عورت کے الگ رہنے پہ شکایت کی گئی ہو۔
سعودی کورٹ اب اس نوعیت کے کوئی کیسز نہیں سنے گی جس میں خاندان یا سرپرست کی جانب سے کسی بالغ لڑکی یا عورت کے الگ رہنے پہ شکایت کی گئی ہو۔

سعودی قانون میں کی گئی اک نئی ترمیم کے تحت اب خواتین اپنے والد یا مرد سرپرست کی اجازت کے بغیر کہیں بھی تنہا سکونت اختیار کر سکیں گی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس مقصد کے لئے سعودی حکام نے شریعہ عدالت کے ضابطہ کار کے آرٹیکل 169 کے اس پیراگراف کو حذف کر دیا ہے جس کے تحت ایک بالغ تنہا، طلاق یافتہ یا بیوہ عورت کو اس کے والد یا مرد سرپرست کی ذمہ داری قرار دیا گیا تھا۔

ترمیمی قانون میں لکھا گیا ہے کہ ہر سعودی بالغ عورت کو اپنی مرضی سے کہیں بھی تنہا رہنے کا حق حاصل ہے اور اس کا سرپرست اس کی شکایت تب ہی کر سکے گا جب وہ کسی جرم کی مرتکب پائی جائے گی۔

ترمیم کے تحت کسی سزا یافتہ عورت کو سزا مکمل کرنے کے بعد بھی اس کی مرضی کے بغیر سرپرست کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔

سعودی کورٹ اب اس نوعیت کے کوئی کیسز نہیں سنے گی جس میں خاندان یا سرپرست کی جانب سے کسی بالغ لڑکی یا عورت کے الگ رہنے پہ شکایت کی گئی ہو۔

2019 کے اوائل میں سعودی عرب نے خواتین پر عائد مرد کی سرپرستی کے نظام کے ناجائز استعمال پر نظر ثانی کا عندیہ دیا تھا جس کے تحت چند ہی مہینوں بعد خواتین کو سرپرست کی اجازت کے بغیر پاسپورٹ حاصل کرنے اور بیرون ملک سفر کرنے کی خود مختاری حاصل ہو گئی تھی۔

اس سے پہلے سعودی قانون کے تحت سعودی عورتیں مکمل طور پر اپنے والد یا شوہر اور دیگر کیسز میں اپنے بھائی یا کسی مرد رشتے دار کی ذمہ داری سمجھی جاتی تھیں۔

اس قانون کو عورتوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے ہمیشہ شدید تنقید کا سامنا رہا ہے جو اسے نہ صرف خواتین کی سماجی اور مالی خود مختاری پر قدغن قرار دیتے ہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون عورتوں کو مزید غیر محفوظ اور گھریلو تشدد کا آسان ہدف بناتا ہے۔

XS
SM
MD
LG