رسائی کے لنکس

سعودی خاتون کو حکومت مخالف ٹویٹس پر 34 برس قید کی سزا


سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی ویژن کی ایک فوٹیج جس میں طالبہ اور خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن سلمہ الشہاب ایک کتاب میلے صحافی سے گفتگو کر رہی ہیں۔ ( مارچ 2014۔اے ایف پی)
سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی ویژن کی ایک فوٹیج جس میں طالبہ اور خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن سلمہ الشہاب ایک کتاب میلے صحافی سے گفتگو کر رہی ہیں۔ ( مارچ 2014۔اے ایف پی)

سعودی عرب کی ایک عدالت نے جمعرات کے روز میڈیکل کی ایک طالبہ کو افواہیں پھیلانے اور حکومت کے مخالفین کی ٹوئیٹس کو ری ٹوئیٹ کرنے کے الزام میں34 برس قید کی سزا سنائی ہے۔اس فیصلے پر دنیا بھر میں مذمت کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔

سرگرم کارکن اور وکلا سلمہ الشہاب کو دی جانے والی سزا کو سعودی معیار انصاف کے لحاظ سے بھی تکلیف دہ قرار دے رہے ہیں۔ سلمہ دو بچوں کی ماں ہیں اور برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی میں ریسرچر ہیں۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے بارے میں مبصرین کا کہنا ہے ک وہ اگرچہ قدامت پسند اسلامی ملک میں خواتین کو ڈرائیونگ کے حق اور دوسری آزادیوں دینے کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہیں، لیکن انہوں نے اپنے مخالفین کی بیخ کنی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

واشنگٹن میں قائم حقوق انسانی کے ایک گروپ فریڈم انیشیٹو کا کہنا ہے کہ سلمہ کو 15 جنوری 2021 کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنے خاندان کے ساتھ چھٹیاں گزار رہی تھیں اور برطانیہ واپسی کی تیاری کر رہی تھیں۔

اور جو قانونی کاغذات ایسو سی ایٹڈ پریس نے حاصل کئے ہیں انکے مطابق سلمہ نے ججوں کو بتایا کہ ان کا مقدمہ عدالت میں پیش کرنے سے قبل انہیں دو سو پچاسی روز سے زیادہ قید تنہائی میں رکھا گیا۔

فریڈم انیشیٹو کا کہنا ہے کہ سلمہ الشہاب کا تعلق سعودی عرب کی شیعہ مسلم اقلیت سے ہے جو عرصے سے سنی حکمرانی والے ملک میں اپنے خلاف امتیازی سلوک کی شکایت کرتی آرہی ہے۔

گروپ کی جانب سے کیس منیجر بیتھنی آل حیدری کا کہنا ہے سعودی عرب دنیا کو تو بتاتا ہے کہ وہ عورتوں کے حقوق بہتر بنارہا ہے۔ اور قانونی اصلاحات لا رہا ہے۔ لیکن اس نوعیت کی سزاؤں کے بعد اس بارے میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ وہاں صورت حال مزید بد تر ہو رہی ہے

حقوق انسانی کے ممتاز ادارے ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے جمعرات کے روز الشہاب کے مقدمے کو قطعی غیر منصفانہ اور انہیں دی جانے والی سزا کو ظالمانہ اور غیر قانونی قرار دیا۔

ججوں نے الشہاب پر امن عامہ میں خلل ڈالنے اور معاشرے کے تارو پود کو غیر مستحکم کرنے کے الزامات عائد کئے۔ جبکہ سرکاری چارج شیٹ کے مطابق یہ دعوے کلی طور سے سوشل میڈیا پر انکی سرگرمیوں کی بنیاد پر کئے گئے ہیں۔

ریاض میں سعودی حکومت اور واشنگٹن اور لندن میں سعودی سفارت خانوں نے اس معاملے میں اپنا موقف دینے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔

XS
SM
MD
LG