رسائی کے لنکس

سپریم کورٹ: نو مئی واقعات میں 103 سویلینز کے ملٹری ٹرائل کی تفصیلات طلب


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس میں 103 افراد کے مقدمات کی تفصیلات اور نو مئی کے کیسز میں بے قصور قرار دیے گئے افراد کی تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے۔

پیر کو چھ رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر درخواست گزار جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے بینچ کے ارکان کی تعداد پر اعتراض کرتے ہوئے نو رکنی بینچ بنانے کی استدعا کی۔

دوران سماعت عدالت نے اٹارنی جنرل منصور عثمان کو روسٹرم پر طلب کیا اور جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا ملزمان میں کسی کی رہائی ہوئی ہے یا ہو سکتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹرائل مکمل ہو چکا ہے لیکن ابھی فیصلے نہیں سنائے گئے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کچھ ایسے ملزمان ہیں جن کی گرفتاری کا دورانیہ سزا میں تصور ہو گا۔ سپریم کورٹ کے حکمِ امتناع کی وجہ سے بریت کے فیصلے نہیں ہو سکے۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بریت کے فیصلے پر تو کوئی حکم امتناع نہیں تھا جو ملزمان بری ہو سکتے ہیں ان کے فیصلے سنانے کی اجازت دی جائے۔

جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ جو ملزمان بری ہو سکتے ہیں انہیں تو کریں باقی کی قانونی لڑائی چلتی رہے گی۔

خیبرپختونخوا نے اپیل واپس لے لی

سماعت کے دوران خیبر پختونخوا حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف دائر اپیلیں واپس لینے کی استدعا کی اور اس بارے میں صوبائی کابینہ کی قرارداد عدالت میں پیش کی گئی۔

کے پی حکومت کے وکیل نے کہا کہ انٹرا کورٹ اپیلیں واپس لینا چاہتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ کابینہ کی قرارداد پر تو اپیلیں واپس نہیں کر سکتے۔ مناسب ہو گا کہ اپیلیں واپس لینے کے لیے باضابطہ درخواست دائر کریں۔

فوجی عدالتوں کے خلاف درخواست گزاروں نے حکومتی اداروں کی جانب سے پیش ہونے والے نجی وکلا پر بھی اعتراض عائد کیا۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سرکاری اداروں کی جانب سے اٹارنی جنرل نے پانچ اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔ بعض وزارتوں کی جانب سے نجی وکلا کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے خود اپیلیں دائر کی ہیں تو نجی وکلا پر عوام کا پیسہ کیوں خرچ کیا جا رہا ہے۔

وکیل خواجہ احمد حسین کا کہنا تھا کہ بینچ کی تشکیل کے لیے مناسب ہو گا کہ معاملہ دوبارہ ججز کمیٹی کو بھیجا جائے۔ پہلے بھی نو رکنی بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔

خواجہ احمد حسین نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے متفقہ فیصلہ دے کر ٹرائل کالعدم قرار دیا اگر چھ رکنی بینچ نے اسے 4-2 سے کالعدم قرار دے دیا تو یہ متنازع ہو جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ پر عوامی اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ فیصلہ متنازع نہ ہو، ایسا تاثر نہ جائے کہ بینچ کی تشکیل سے ہی فیصلہ واضح ہو۔ بینچ کی تشکیل کے لیے مناسب ہو گا کہ معاملہ دوبارہ ججز کمیٹی کو بھیجا جائے۔

اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پہلے ہی نو رکنی بینچ بن جاتا تو آج اپیلوں پر سماعت ممکن نہ ہوتی۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے زیر حراست 103افراد کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے پوچھا کہ بتائیں کتنے ملزمان کو کتنی سزائیں ہوئیں۔ یہ بھی بتائیں کتنے ملزمان بری ہوئے؟ زیر حراست 103 افراد میں سے کتنے افراد کی بریت بنتی ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔

سویلین افراد کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں کیس ہے کیا؟

پاکستان میں نو مئی 2023 کے بعد ملک بھر میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے الزام میں سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے بیش تر افراد کا تعلق پاکستان تحریکِ انصاف سے تھا۔

ان کارکنوں کی گرفتاری کے بعد سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی کہ سویلین افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو سکتا۔

بعد ازاں جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں اکتوبر 2023 میں پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ سویلین افراد کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں نہیں ہو سکتا۔

اس فیصلے کو وفاقی حکومت، وزارتِ دفاع، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان حکومت نے انٹراکورٹ اپیلوں کے ذریعے چیلنج کر دیا اور بعدازاں 6 ججوں کے بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو یہ فیصلہ پانچ ایک کی اکثریت سے معطل کر دیا۔

انٹرا کورٹ اپیل پر 29 جنوری کو ہونے والی آخری سماعت میں جسٹس سردار طارق مسعود نے انہیں تین ججوں پر مشتمل کمیٹی کے پاس بھیج دیا تا کہ اسے لارجر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جا سکے۔ 22 مارچ کو سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر ہو گئی تھیں۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے 20 مارچ کو فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف اپیلوں کی جلد سماعت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی۔

سابق چیف جسٹس کی درخواست میں استدعا کی گئی کہ اگر اپیل خارج کر دی گئی تو شہریوں کو بلا جواز کئی مہینوں تک فوجی حراست میں رہنا پڑے گا۔

درخواست گزار نے مطالبہ کیا کہ ترجیحی بنیادوں پر 25 مارچ تک کیس کی سماعت کی جائے کیوں کہ شہریوں کے مسلسل فوجی حراست میں رہنے سے ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اُن درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے گزشتہ سال نو مئی کو پرتشدد مظاہروں کے الزام میں گرفتار کیے گئے شہریوں کے فوجی ٹرائل کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔

فورم

XS
SM
MD
LG