رسائی کے لنکس

تیز رفتار اقتصادی ترقی کے لیے تحقیقی عمل کے فروغ پر زور


وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی چنگیز خان جمالی
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی چنگیز خان جمالی

وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی کا کہنا ہے کہ اس شعبے کے لیے مختص بجٹ میں اضافے کے علاوہ محققین، ماہرین تعلیم اور نجی شعبے کے مابین تعاون کو فروغ دینا حکومت کی نئی پالیسی کا بنیادی جز ہے۔

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی چنگیز خان جمالی کا کہنا ہے کہ تحقیقی عمل کے فروغ کے لیے اندرون ملک اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ روابط بڑھانے کے لیے حکومت وقت خصوصی اقدامات اور منصوبے متعارف کرا رہی ہے۔

اُنھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملک کی افرادی قوت کو منظم طور پر استعمال میں لا کر ہی معاشی خود مختاری کا حصول ممکن ہے اس لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے لیے مختص بجٹ میں اضافہ کے علاوہ محققین، ماہرین تعلیم اور نجی شعبے کے مابین تعاون کو فروغ دینا حکومت کی نئی پالیسی بنیادی جز ہے۔

’’2015ء تک ہمیں ملک کی مجموعی آمدن کا کم از کم ایک فیصد دیا جائے اور 2020ء تک (سائنس کا بجٹ) دو فیصد سے زائد ہونا چاہیے… لیکن ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت کیا کر سکتے ہیں تو ہم نے محققین اور نجی شعبے کے مابین روابط بڑھانے کا کام شروع کر دیا ہے۔‘‘

وفاقی وزیر نے ان خیالات کا اظہار جمعہ کو سائنسی شعبے میں ترقی کے لیے نئی قومی پالیسی کے اعلان کے بعد کیا۔ اس تقریب میں ان کے ساتھ پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی سربراہ ڈاکٹر مدثر اسرار بھی موجود تھیں۔

اُنھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے متعلق پاکستان میں ایک مربوط پالیسی کا فقدان رہا ہے اور اب تک جتنی بھی تحقیق ہوئی ہے اس کے لیے قومی سطح پر کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی اس لیے 17 سال کے وقفے کے بعد مرتب کردہ دستاویز یقیناً ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔


ڈاکٹر مدثر اسرار
ڈاکٹر مدثر اسرار
’’اس پالیسی کا ہدف لوگوں کی معاشی حالت کو بہتر بنانا ہے اور اس کے لیے کچھ اقدام ہیں کہ تحقیق کے ڈھانچے کو بہتر بنائیں، اپنے لوگوں کی استعداد کار کو بہتر بنائیں، بین الاقوامی روابط کو مضبوط بنائیں۔ کوئی ٹیکنالوجی ہمارے پاس نہیں ہے تو اس کو تیار کریں لیکن اگر نہیں ایسا ہوتا تو باہر سے ٹیکنالوجی ملک میں لے کر آئیں تاکہ ہم خود مختار ہو سکیں۔‘‘

ڈاکٹر مدثر کہتی ہیں کہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی نئی پالیسی میں اس پر خصوصی توجہ دی گئی ہے کہ ملک میں بنیادی تعلیم کے نظام کو بہتر بنایا جائے کیوں کہ اس کے بغیر سائنسی میدان میں ترقی کا تصور ممکن نہیں۔

’’پہلے اسکول، پھر کالج اور پھر یونیورسٹی میں دی جانے والی تعلیم کو بہتر کریں گے…. یعنی اسکول کالج کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے کیوں کہ وہ ہی تو سپلائی کا راستہ ہے، جو آگے آ کر سائنسدان اور محقق بنتے ہیں وہ اسکول اور کالج ہی سے آتے ہیں۔‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ محتاط اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی لگ بھگ چالیس فیصد آبادی کی عمر 30 سال سے کم ہے اس لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے کو ترقی دینے کے لیے ان نوجوانوں کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جس سے روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔
XS
SM
MD
LG