رسائی کے لنکس

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی: شدید سمندری طوفانوں کی سائنس


بحر اوقیانوس میں آنے والا ’کاٹیا‘ نامی سمندری طوفان
بحر اوقیانوس میں آنے والا ’کاٹیا‘ نامی سمندری طوفان

سمندری طوفان اُس وقت بنتے ہیں جب کسی ایک علاقے میں ہوا کا درجہٴ حرارت نزدیکی علاقے کے درجہٴ حرارت سے مختلف ہوجاتا ہے۔ گرم ہوا سطحِ آب سے بلند ہونے لگتی ہے جب کہ سرد ہوا نیچے کا رُخ کرتی ہے ، اور یوں، ماحولیاتی دباؤ میں فرق آجاتا ہے

گذشتہ دِنوں امریکہ اور ایشیا میں شدید سمندری طوفان آئے۔ بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان بھی ہوا۔

بحرِ ہند کے اوپر ڈولپ ہونے والے طوفانوں کو’سائکلون‘ کہتے ہیں، شمال مشرقی بحر الکاہل پر بننے والے طوفان ’ٹائفون‘ کہلاتے ہیں، جب کہ مشرقی بحر الکاہل اور بحیرہٴ اوقیانوس کے اوپر بننے والےطوفانوں کو ’ہریکینز‘کا نام دیا جاتا ہے۔

اِن قدرتی آفات کو صدیوں سے انسانی نام دیے جاتے ہیں۔ آسٹریلیا کے ایک سائنس داں نے انیسویں صدی کے اختتام سے قبل اِن طوفانوں کو عورتوں کا نام دینا شروع کیا اور امریکہ میں ماہرینِ موسمیات نے 1953ء میں طوفانوں کے لیے خواتین کا نام استعمال کرنا شروع کردیا۔ لیکن، 1979ء میں مردوں کا نام بھی استعمال کیا جانے لگا۔

سمندری طوفان اُس وقت بنتے ہیں جب کسی ایک علاقے میں ہوا کا درجہٴ حرارت نزدیکی علاقے کے درجہٴ حرارت سے مختلف ہوجاتا ہے۔ گرم ہوا سطحِ آب سے بلند ہونے لگتی ہے جب کہ سرد ہوا نیچے کا رُخ کرتی ہے ، اور یوں، ماحولیاتی دباؤ میں فرق آجاتا ہے۔

اگر دباؤ بڑے علاقے کے اوپر تبدیل ہوتا ہے تو ہوائیں ایک بڑے دائرے کی شکل میں چلنے لگتی ہیں۔زیادہ دباؤ والی ہوا کم دباؤ والے مرکز کی طرف کھچنے لگتی ہے۔ گہرے بادل بنتے ہیں اور شدید بارش ہوتی ہے۔

اُس وقت، طوفان بھی مزید شدید ہوجاتے ہیں جب وہ گرم سمندری پانیوں کے اوپر حرکت کرتے ہیں۔

انتہائی شدید سمندری طوفانوں میں ہواؤں کی رفتار 250کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہوسکتی ہے۔ 50سینٹی میٹر تک بارش ہوسکتی ہے۔ بعض طوفانوں میں تو 150سینٹی میٹر بارش بھی ہوتی ہے۔

اِن طوفانوں کی وجہ سے سمندری لہروں میں بھی شدت آجاتی ہے اور بعض اوقات پانی کی موجیں چھ میٹر کی اونچائی تک پہنچ جاتی ہیں اور نشیبی ساحلی علاقوں میں سیلاب آجاتا ہے۔

امریکہ کے مقام میامی میں نیشنل ہریکین سینٹر شدید طوفانوں پر گہری نظر رکھتا ہے۔یہ سینٹر سرکاری عہدے داروں اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی مدد سے لوگوں کو معلومات بہم پہنچاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ طوفان کے بارے میں جلدی دی جانے والی اطلاعات کے نتیجے میں حالیہ برسوں میں ہلاکتوں کی تعداد میں کمی ہوگئی۔

موسمیاتی ماہر موسمی ماڈل تشکیل کرنے کے لیے کمپیوٹر پروگرام استعمال کرتے ہیں۔ اِن سے پتا چلتا ہے کہ طوفان کی سمت کیا ہوسکتی ہے۔

اِن پروگراموں میں درجہٴ حرارت، ہوا کی رفتار، ماحولیاتی دباؤ اور ماحول میں پانی کی مقدار یعنی نمی کے تناسب کے بارے میں معلومات موجود ہوتی ہیں۔

سائنس داں یہ معلومات سیٹلائیٹس ، ویدر بیلونس اور سمندر میں بہتے ہوئے آلات سے حاصل کرتے ہیں۔

اُنھیں یہ معلومات بحری جہازوں، مسافر بردار طیاروں اور دوسری پروازوں سے بھی ملتی ہیں۔

سرکاری سائنس داں خصوصی آلات سے آراستہ جہازوں میں طوفان کے اندر اور گرد اُڑان بھرتے ہیں، عملے کے افراد پیراشوٹ سے بندھے آلات گراتے ہیں اور اِن آلات کی مدد سے درجہٴ حرارت دباؤ اور ہوا کی رفتار کے بارے میں معلومات اِکٹھی کی جاتی ہے۔ بعض سائنس دانوں کا خیال ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی سے بڑے طوفانوں پر اثر مرتب ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ زمین کا ماحول اِن طوفانوں کو بدتر بنا رہا ہے، جب کہ کچھ اور سائنس داں اِس نظریے سے اختلاف کرتے ہیں۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG