رسائی کے لنکس

شام میں جنگ بندی کی قرارداد سلامتی کونسل میں ناکام


اقوامِ متحدہ میں شام کے سفیر بشار جعفری اور روس کے سفیر وٹالے چرکن سلامتی کونسل میں شام پر ہونے والی ایک بحث میں شریک ہیں (فائل)
اقوامِ متحدہ میں شام کے سفیر بشار جعفری اور روس کے سفیر وٹالے چرکن سلامتی کونسل میں شام پر ہونے والی ایک بحث میں شریک ہیں (فائل)

قرارداد پر رائے شماری کے دوران روس اور چین کے علاوہ 15 رکنی سلامتی کونسل کے رکن وینزویلا نے بھی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام کے شمالی شہر حلب میں جنگ بندی کے لیے پیش کی جانے والی قرارداد روس اور چین نے ویٹو کردی ہے۔

قرارداد مصر، اسپین اور نیوزی لینڈ نے مشترکہ طور پر پیش کی تھی جس میں حلب میں سات روز کےلیے جنگ بندی کی تجویز پیش کی گئی تھی۔

قرارداد میں تجویز پیش کی گئی تھی کہ جنگ بندی کے دوران حلب میں تمام فریقین پر فضائی حملوں اور گولہ باری سمیت "ہر طرح کے ہتھیاروں" کے استعمال پر پابندی ہوگی۔ البتہ پچھلی قراردادوں کی طرح موجودہ قرارداد میں بھی یہ واضح کیا گیا تھا کہ جنگ بندی کا اطلاق داعش اور النصرہ فرنٹ سمیت دیگر شدت پسند تنظیموں پر نہیں ہوگا۔

قرارداد میں تنازع کے تمام فریقین سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ جنگ بندی کے عرصے کے دوران حلب میں پھنسے عام شہریوں تک امدادی سامان کی فوری اور مکمل رسائی کے لیے اقوامِ متحدہ اور اس کے معاون عالمی اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔

پیر کو قرارداد پر رائے شماری کے دوران روس اور چین کے علاوہ 15 رکنی سلامتی کونسل کے رکن وینزویلا نے بھی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ افریقی ملک انگولا نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

رائے شماری سے قبل روس نے خبردار کیا تھا کہ قرارداد کے نتیجے میں مذاکرات کی ان کوششوں کو نقصان پہنچے گا جن کا مقصد روسی حکام کے بقول حلب میں گزشتہ کئی مہینوں سے جاری لڑائی کا خاتمہ ہے۔

پیر کو قرارداد پر رائے شماری سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ وہ شام کے مسئلے پر اپنے امریکی ہم منصب جان کیری سے منگل یا بدھ کو جنیوا میں ملاقات کریں گے۔

سرگئی لاوروف نے دعویٰ کیا تھا کہ اس ملاقات میں مشرقی حلب سے تمام جنگجووں کے انخلا کا طریقہ اور ٹائم فریم طے کیا جائے گا۔ تاہم امریکی حکام نے تاحال اس ملاقات کی تصدیق نہیں کی ہے۔

شام میں خانہ جنگی کے آغاز سے قبل حلب ملک کے سب سے بڑا شہر اور معاشی مرکز تھا جو لگ بھگ چھ سال قبل شروع ہونے والی بغاوت کی ابتدا سے ہی حکومت مخالف باغیوں کا مضبوط گڑھ رہا ہے۔

تاہم شامی افواج روس کے تعاون سے گزشتہ کئی ماہ سے شہر کے مشرقی علاقوں پر جارحانہ فضائی حملے اور گولہ باری کر رہی ہیں جن پر باغیوں کا قبضہ ہے۔

شامی فوج کے محاصرے اور بمباری کے باعث مشرقی حلب میں پھنسے ہزاروں شہری بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں جن تک امدادی سامان پہنچانے کے لیے اس سے قبل بھی عالمی برادری کے دباؤ پر شامی حکومت مختصر مدت کے لیے حملے بند کرتی رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG