رسائی کے لنکس

بھارت: ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات پر فلمی شخصیات کی مذمت


بھارت میں ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں ایا ہے۔
بھارت میں ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں ایا ہے۔

بھارت میں ہجوم کے ہاتھوں قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات پر سیاسی شخصیات کے علاوہ فلمی ستارے بھی میدان میں آ گئے ہیں۔

رواں سال جولائی میں فلمی صنعت سے تعلق رکھنے والے 49 افراد نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا تھا۔ جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کے ہجوم کے ہاتھوں قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں۔ تاہم ان افراد کے خلاف گزشتہ ہفتے ضلع مظفر پور کی پولیس نے بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا تھا۔

ان شخصیات میں فلم ساز اپرنا سین، آدر گوپال کرشنن، شبھا مدگل، سمیترا چترجی، کنکونا سین، ہدایت کار منی رتنم، کے علاوہ تاریخ دان رام چندرا گوہا بھی شامل ہیں۔

ایف آئی آر میں ان شخصیات پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے اس خط کے ذریعے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کی کوشش کی۔ جب کہ ان کا یہ اقدام ریاست مخالف بھی ہے۔

ان شخصیات سے اظہار یکجہتی کے لیے فلمی صنعت سے وابستہ مزید 185 افراد نے وزیر اعظم نریندر مودی کو لکھے گئے خط کی توثیق کی ہے۔

ان فلمی شخصیات میں اداکار نصیر الدین شاہ، ڈانسر ملائیکا سارہ بھائی، مصنف اشوک واجپائی، نین تارا سہگل، تاریخ دان رومیلا تھاپڑ اور اور اداکار ویون سندرام شامل ہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق مذہب کے معاملے پر اختلاف رائے رکھنے والے افراد ایک دوسرے کو نشانہ بناتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں ان واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

فلمی شخصیات کا کہنا ہے کہ محض اس بات پر 49 افراد کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے کہ انہوں نے ایک معاشرتی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ ان کے بقول ایف آئی آر کے اندراج سے عام آدمی کو یہ پیغام جائے گا کہ معاشرے میں ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی سزا مل سکتی ہے۔

بھارت میں ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات پر احتجاج بھی ہوتے رہتے ہیں۔
بھارت میں ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات پر احتجاج بھی ہوتے رہتے ہیں۔

بہار پولیس نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ 49 افراد کے خلاف مقدمہ عدالتی حکم پر دائر کیا گیا ہے۔ ریاستی پولیس افسر گپتیشور پانڈے کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کا اس مقدمے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

واضح رہے کہ جولائی میں وزیراعظم نریندر مودی کو لکھے گئے خط میں ان 49 شخصیات کی جانب سے جے شری رام کے نعرے کو مشتعل اور اکسانے والا نعرہ قرار دیا گیا تھا۔ کیوں کہ اس نعرے کے نتیجے میں کئی افراد کو ہجوم کے ہاتھوں نشانہ بننا پڑا تھا۔

اسی دوران کچھ سیاسی جماعتوں اور فلمی اداروں کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ 49 افراد کے خلاف دائر بغاوت کے مقدمے کو واپس لیا جائے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور کیرالہ کی کلاچتر اکیڈمی اور کانگریس کی جانب سے اس اقدام کی سخت مذمت کی گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG