رسائی کے لنکس

انور اقبال؛ بلوچی زبان کی پہلی فلم کا ہیرو، جسے ریلیز میں 42 برس لگے


انور قبال نے ٹی وی ڈراموں میں کئی یادگار کردار ادا کیے۔
انور قبال نے ٹی وی ڈراموں میں کئی یادگار کردار ادا کیے۔

"انور اقبال نے بلوچی زبان میں فلم سازی کا آغاز کرنے کی تاریخ رقم کرنا چاہی تھی البتہ اس فلم پر ہونے والا تنازع خود ایک تاریخ بن گیا۔"

یہ کہنا ہے سینئر صحافی نادر شاہ عادل کا جو بلوچی زبان کی پہلی فلم بنانے والے اور اس کے ہیرو انور اقبال کے ساتھ اس فلم کی کاسٹ میں شامل تھے۔ بعد میں انور اقبال نے ٹی وی ڈراموں میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔ یہ ممتاز فن کار یکم جولائی کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

انور اقبال کی بنائی گئی بلوچی زبان کی پہلی فلم ’حمل و ماہ گنج‘ کو ریلیز ہونے میں 42 سال لگے۔ بلوچی میں فلم سازی کی اپنی پہلی کوشش پر ہونے والے تنازعے کا انہیں ہمیشہ افسوس رہا البتہ اداکاری کی دنیا میں ان کا سفر رکا نہیں۔

انور اقبال بلوچ 25 دسمبر 1949 کو کراچی کے علاقے لیاری میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 70 اور 80 کی دہائی میں متعدد ٹی وی ڈراموں میں کام کیا جن میں اردو کے ساتھ ساتھ سندھی زبان کے ڈرامے بھی شامل تھے۔

انہیں فاطمہ ثریا بجیا کے ڈرامے 'شمع' نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا جس میں جہاں ان کے کردار قمر سے منسوب لائن 'نانا کی جان قمرو' بے حد مقبول ہوئی تھی۔

انہوں نے نسیم حجازی کے 'آخری چٹان' اور فاطمہ ثریا بجیا کے 'بابر' جیسے ڈراموں میں کردار نبھائے۔ بعد ازاں انور اقبال نے ہدایت کاری کے میدان میں بھی قدم رکھا۔

پہلی بلوچی فلم پر تنازع کیوں ہوا؟

فلم کی تیاری اور اس پر ہونے والے تنازعے کے بارے میں سینئر صحافی نادر شاہ عادل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انور اقبال سے ان کی دوستی لیاری میں ہوئی تھی جہاں وہ ایک ہی محلے میں رہا کرتے تھے۔ انور اقبال کے والد حاجی محمد اقبال بلوچ گوادر کے پرانے مسلم لیگی لیڈر تھے اور وہ لیاری کے علاقے بغدادی بھی آیا کرتے تھے۔

نادرشاہ عادل نے بتایا کہ یہ 1973 کا زمانہ تھا۔ اس دور میں انور اقبال کی ایک ٹریولنگ ایجنسی بھی تھی۔

جس میں کبھی روزنامہ ’مساوات‘ اور کبھی ’جنگ‘ اخبار جاتا تھا اور اسی دور میں انور سے ملاقاتیں رہتی تھیں جن میں وہ بلوچی زبان میں فلم بنانے کی خواہش کا اظہار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ آپ تیار رہیں اس میں آپ کو بھی کام کرنا ہو گا۔"

نادرشاہ عادل کہتے ہیں کہ 1973 میں انور اقبال نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی فلم ’حمل و ماہ گنج‘ کی لوک کہانی کے اسکرپٹ پر کام کر رہے ہیں۔

یہ تھی تو رومانوی بلوچ لوک داستان مکران کی ایک قدیم بندرگاہ کلمت کے سردار جیئند کے بیٹے ’حمل‘ کی زندگی کی کہانی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب پندرہویں صدی میں پرتگیزی عمان پر حملہ کر چکے تھے اور ان کی نگاہیں بلوچستان کے ساحلوں پر بھی تھیں۔

حمل اپنے باپ جیئند کی موت کے بعد سردار بنا۔ اس نے اپنے باپ کی نصیحت کے مطابق پرتگیزیوں کے خلاف مزاحمت کی۔ اس کے ساتھ ہی یہ حمل کی اپنی بیوی ماہ گنج سے محبت کی داستان بھی ہے۔ نادر شاہ عادل نے اس فلم میں حمل کے دوست گوریچ کا کردار ادا کیا تھا۔

نادر شاہ عادل کا کہنا ہے کہ اس فلم کے وسائل کا انتظام انور اقبال نے خود کیا تھا۔ فلم کا اسکرپٹ ظہور شاہ ہاشمی نے تیار کیا تھا جو بلوچی زبان کے نامور ادیب اور شاعر تھے۔ اردو و بلوچی کے معروف شاعر عطا شاد نے بھی اس کے تین چار گانے لکھے اور فتح محمد نذر نے اس کی موسیقی دی اور 1974 میں فلم کی شوٹنگ شروع ہوئی۔

انور اقبال اس سے قبل فلمی کیرئیر شروع کر چکے تھے۔ ان کی پہلی فلم کا نام ’دھماکہ‘ تھا جو اردو کے معروف ادیب ابن صفی کی کہانی پر مبنی تھی اور اس فلم میں جاوید شیخ بھی تھے۔

انہوں نے بتایا کہ حمل و ماہ گنج کی عکس بندی 74 میں شروع ہوئی۔ حب اور ملیر وغیرہ کے صحرائی علاقوں میں اس کی شوٹنگ کی گئی۔

دو گانے

نادر شاہ عادل کا کہنا ہے کہ 1975-76 تک فلم کی شوٹنگ مکمل ہوئی۔ شوٹنگ کے آخری دنوں میں ان کی قوم پرست طلبہ تنظیم کے دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ اس زمانے میں ایسی تنظیمیں مضبوط ہوا کرتی تھیں۔ ان دوستوں نے ان سے کہا کہ شاہ صاحب بلوچی زبان کی فلم میں کام کر رہے ہیں، کیا ان کو اندازہ ہے کہ اس کے خلاف مہم چلنے والی ہے؟

وہ بتاتے ہیں کہ انہیں اندازہ تو تھا اور ایسی باتیں بھی ہو رہی تھیں اور ’بلوچی فلم چلے گی تو جلے گی‘ کے نعرے بھی سامنے آ رہے تھے۔ یہ باتیں بھی کی جا رہی تھیں کہ بلوچی ثقافت کسی فلم کی محتاج نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان دوستوں کا کہنا تھا کہ ان کی اطلاع یہ ہے کہ یہ فلم پٹڑی سے اتر رہی ہے اور یہ بلوچوں کو آخر کار پشتو فلموں سے جا کر ملا دے گی اور اس میں بھی لباس اور رقص کا وہی ڈھنگ آ جائے گا۔

نادرشاہ عادل نے بتایا کہ یہ بہر حال ان کے اندیشہ ہائے دور دراز تھے۔ میں نے آخری سین شوٹ کیا تو اس کے بعد دو گانیں فلمائے گئے جس کا مجھے علم نہیں تھا۔ پوری فلم بلیک اینڈ وائٹ تھی لیکن یہ دو گانے رنگین تھے۔

ان کے بقول سینسر سے فلم کی ریلیز کی اجازت ملنے کے بعد بھی یہی دو گانے اس فلم پر تنازع کی اصل وجہ بنے۔

’کسی نے معاوضہ نہیں لیا‘

انہوں نے بتایا کہ اس فلم میں کام کرنے والوں میں سے کسی نے کوئی معاوضہ نہیں لیا تھا۔ انور اقبال کا کہنا تھا کہ بلوچی زبان کے نام پر یہ فلم بن رہی ہے اور یہ ہماری پہلی کوشش ہے اس میں سب ساتھ دیں۔ وہ بتاتے تھے کہ انہوں نے بڑی مشکل سے یہ فلم بنانے کے لیے پیسے جمع کیے ہیں۔

نادر شاہ عادل بتاتے ہیں کہ فلم تیار ہوئی اور جب فلم کا اسٹوڈیو شو ہوا تو اسی میں ہنگامہ ہو گیا۔ اس تقریب میں بلوچی زبان کے ادیب و دانشور، اس وقت کے وفاقی وزیرِ محنت ستار بلوچی اور دیگر سیاسی و سماجی شخصیات بھی موجود تھیں۔

اس کے علاوہ دیگر سماجی و سیاسی تنظیموں کے لوگوں نے تقریریں کی جن میں اس بات پر زور دیا گیا کہ یہ فلم بلوچوں کے مزاج کے خلاف ہے۔

نادر شاہ عادل نے بتایا کہ ناقدین کا کہنا تھا کہ ’حمل و ماہ گنج‘ کی لوک داستان پر یہ ایک دستاویزی فلم تھی اس میں کمرشل فلموں جیسی چیزیں نہیں ڈالنی چاہیے تھیں بہر حال یہ ایشو بن گیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ فلم کا اسٹوڈیو شو تو ہو گیا لیکن اس کے بعد ’چراغوں میں روشنی نہ رہی‘۔ مخالفت بڑھتی رہی۔ بی ایس او کے ساتھ دیگر لوگ بھی مخالفت کرنے لگے اور اس میں ایسے لوگ بھی شامل ہو گئے جو تنظیموں کے ساتھ ہوتے ہیں لیکن ان کے مفادات کچھ اور ہوا کرتے ہیں۔

حاکم علی زرداری کے سنیما میں۔ ۔ ۔

انور اقبال نے مختلف سنیما گھروں میں اس فلم کو چلانے کی کوشش کی لیکن کسی نے فلم نہیں چلائی۔ دو سنیماؤں نے بلوچی زبان کے نام پر فلم چلانے کی کوشش بھی کی لیکن اس پر بھی ہنگامہ ہوا اور سنیما گھروں کو نقصان بھی پہنچا۔

نادر شاہ عادل بتاتے ہیں کہ جب کوئی سنیما یہ فلم چلانے کے لیے تیار نہیں تھا تو سابق صدر آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری نے اپنے ’لیرک‘ سنیما میں اس کا شام چھ بجے کا شو کیا۔ البتہ وہاں بھی کافی ہنگامہ ہوا اور اس دن انور اقبال بہت دل گرفتہ نظر آئے۔

’فلم چلے گی تو جلے گی‘

نادرشاہ عادل کہتے ہیں کہ فلم کی مخالفت جاری رہی۔ لیاری اور دیگر علاقوں کے دیواریں اس نعرے سے سیاہ ہو گئے کہ ’بلوچی فلم چلے گی تو چلے گی‘۔ ایک گروہ فلم کی حمایت میں بھی تھا جو نعرہ لگاتا تھا کہ ’بلوچی فلم جلے گی تو چلے گی‘۔

اس کے بعد عطا شاد 1976 میں انور اقبال کے گھر آئے اور کہا کہ آپ نے فلم تو بنالی لیکن لوگ ضد پر آ گئے ہیں اور معاملہ سیاسی ہو گیا ہے۔

نادر شاہ عادل کے بقول وہ بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ عطا شاد نے انور اقبال سے کہا کہ فلم کے مخالفین سمجھ رہے ہیں کہ اس فلم کے پیچھے آپ کے سیاسی عزائم ہیں اور وہ اپنے خیال میں آپ کا راستہ روک رہے ہیں۔

فلم کا ڈرامہ بنا

انہوں نے بتایا کہ بعد میں عطا شاد نے اسی بلوچی فلم ہی کی کہانی سے ماخوذ ایک ٹی وی ڈرامہ لکھا۔ ’آب اور آئینے‘ کے نام سے بننے والا یہ ڈرامہ دو قسطوں میں پیش کیا گیا جس میں ہیرو کا کردار انور اقبال ہی نے ادا کیا اور اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔

سن 2017 میں انور اقبال نے یہ فلم بلوچ کلچر فیسٹیول میں ریلیز کی اور یہ بلوچی زبان کے چینل ’وش‘ پر بھی دکھائی گئی۔

نادر شاہ عادل کا کہنا ہے کہ انور اقبال ٹی وی میں کام کرتے رہے اور وہ صحافت کے جھمیلوں میں پڑ گئے جس کے بعد ان سے کم کم ہی رابطہ رہا۔ انور اقبال فن کی دنیا سے جڑے رہے اور انہوں نے ترکی ڈراموں میں ڈبنگ بھی کی۔

اچھے اداکار بہترین انسان

انور اقبال کے انتقال پر ان کے ایک اور دیرنہ ساتھی جاوید شیخ نے بھی انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے عمیر علوی سے گفتگو کرتے ہوئے جاوید شیخ نے بتایا کہ ان دونوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامے 'شمع' سے اپنے ٹی وی کریئر کا آغاز کیا تھا اور اس ڈرامے نے انور اقبال کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ ان کے بقول انور اقبال نہ صرف ایک اچھے اداکار تھے بلکہ بہترین انسان بھی تھے۔

جاوید شیخ کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی اداکار کے دنیا سے جانے کے بعد ہی لوگ اسے کیوں یاد کرتے ہیں؟

جاوید شیخ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اداکاروں کے لیے کوئی ایسا فنڈ بنایا جائے جس کے ذریعے ان مستحق لوگوں کی مدد ہو جائے جو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہیں۔

دوسری جانب ایکٹرز کلکٹیو ٹرسٹ (ایکٹ) کے جنرل سیکریٹری اور اداکار علی طاہر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ایسے اداکار جن کے پاس علاج کے لیے وسائل نہیں ہوتے، ان کی مدد کے لیے ایکٹرز کلیکٹیو ٹرسٹ جامع لائحہ عمل بنا رہی ہے۔

علی طاہر نے یہ بھی بتایا کہ 'ایکٹرز ایڈ پروگرام ' کے تحت ان کی تنظیم ایک اور منصوبے پر کام کر رہی ہے جس کے بعد فنڈز کو مستحق افراد تک جلد پہنچایا جا سکے گا۔

XS
SM
MD
LG