رسائی کے لنکس

شہباز شریف کا ایک کروڑ 40 لاکھ خاندانوں کو 2 ہزار روپے ماہانہ سبسڈی دینے کا اعلان


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں،پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کا فیصلہ دل پر پتھر رکھ کر کیا ہے۔ قوم سے خطاب میں شہباز شریف نے کم آمدنی والے گھرانوں کے لیے 28 ارب روپے کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا ۔ اپنی تقریر کے دوران شہباز شریف نے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ ''ذاتی سیاسی مقاصد کے لیے ملکی مفاد کو قربان کر دیا گیا''۔

انہوں نے ملک میں اظہار رائے کی آزادی کا بھی یقین دلایا اور کہا دوبارہ سر اٹھاتی دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے چاروں صوبوں کے ساتھ مل کر نیشنل ایکشن پلان کی بحالی شروع کر دی ہے۔

جمعے کو رات گئے قوم سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ جن حالات میں ملک چلانے کی ذمہ داری سنبھالنا پڑی وہ کڑے امتحان سے کم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ذمہ داری قائد نواز شریف اور اتحادی جماعتوں کی حمایت سے سونپی گئی ہے۔

عمران حکومت کے خاتمے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ'' پہلی بار دروازے کھولے گئے، پھلانگے نہیں گئے۔ یہ عوام اور پارلیمنٹ کی فتح ہے''۔ ان کے بقول، نام نہاد سفارتی خط کے ذریعے سازش بنی گئی اور جھوٹ بولا گیا جبکہ نیشنل سکیورٹی کونسل نے دو بار اور امریکہ میں پاکستان کے اس وقت کے سفیر نے اس سازش کی کہانی کو مسترد کیا ہے۔

شہباز شریف نے سابق حکومت پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ ''جب حکومت سنبھالی تو ہر شعبہ تباہی کی داستان سنا رہا تھا۔ تین دہائیوں کی عوامی خدمت کے سفر میں ایسی تباہی پہلے نہیں دیکھی جو سابق حکومت پونے چار سال کی بدترین حکمرانی کے بعد پیچھے چھوڑ گئی''۔

انہوں نے تحریک انصاف کے سربراہ کا نام لیے بغیر ان کو ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ ''ایک فسادی ذہن نے معاشرتی تانے بانے کو ادھیڑکر رکھ دیا اور معاشرے میں نفرت، انتقام اور غصے کی آلودگی پھیلا دی گئی ہے''۔شہباز شریف نے مزید کہا کہ '' انہوں نے اس وقت بھی اسلام آباد میں دھرنا دیا جب نواز شریف چین کے صدر کو اسلام آباد بلا رہے تھے، ان کے دھرنے کی وجہ سے سی پیک جیسا منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا''۔

وزیراعظم شہباز شریف نے ملک کے اندر جلد یا وقت پر انتخابات کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی، البتہ یہ ضرور کہا کہ پاکستان آئین کے مطابق چلے گا، کسی ایک فرد کی ضد کے مطابق نہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ سابق حکومت جن حقائق پر جان بوجھ کر پردہ ڈال رہی ہے وہ بتائے دیتا ہوں۔ ’’،آئی ایم ایف سے مشکل معاہدہ آپ نے کیا ہم نے نہیں، سخت شرائط آپ نے مانیں ہم نے نہیں۔ عوام کو مہنگائی میں آپ نے پیسا، ہم نے نہیں۔ قوم کو تاریخ کے سب سے زیادہ قرض میں دفن آپ نے کیا، ہم نے نہیں۔ آج معیشت کی سانس بند ہوئی ہے تو اس کے ذمہ دار ہم نہیں ، آپ ہیں۔‘‘

وزیراعظم نے کہا کہ ہر مشکل فیصلہ کرنے کو تیار ہیں۔ ہر وہ کام کریں گے جس سے ترقی کا سفر تیزی سے آگے بڑھ سکے، نااہلی اور کرپشن کا تیزی سے خاتمہ ہو سکے.

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پچھلے دور حکومت میں بیس ہزار ارب روپے کا قرض لیا گیا۔ تاریخ کا بلند ترین خسارہ چھوڑ گئے۔ صرف اسی سال اتنا خسارہ کیا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

شہباز شریف نے کہا کہ حکومت نے فوری طور پر بجلی کے بند کارخانوں پر توجہ دی ہے۔ عوام پچھلی حکومت کے سبب مہنگی بجلی اور گھنٹوں کی لوڈ شیدڈنگ کے عذاب میں متبلا ہوئے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ''پٹرولیم کی قیمتوں میں تیس روپے فی لیٹر کا اضافہ دل پر پتھر رکھ کر کیا۔ دنیا میں پٹرول, ڈیزل کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ تیل پیدا کرنے والے ملکوں سے لے کر ترقی پذیر ملکوں تک سب مشکلات سے دوچار ہیں۔ لیکن سابق حکومت نے تیل پر جس سبسڈی کا اعلان کیا اس کی خزانے میں گنجائش نہیں۔ لیکن ہم نے سیاسی مفاد کے بجائے ملکی مفاد کے لیے فیصلہ کیا جو ناگزیر تھا''۔

بقول ان کے، اس بحران ٰمیں ملک کو سابق حکومت نے پھنسایا ہے اور یہ فیصلہ ملک کو بحران سے نکالنے کی جانب اہم قدم ہے''۔

اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ہم غریب عوام کو پٹرول کی قیمتوں کے بوجھ سے بچانے کے لیے اٹھائیس ارب روپے کے ریلیف کا اعلان کر رہے ہیں جس میں سےایک کروڑ چالیس لاکھ غریب گھرانوں کو دو ہزار روپے ماہانہ کی صورت میں دیے جا رہے ہیں۔ یہ گھرانے آٹھ کروڑ افراد پر مشتمل ہیں۔ یہ امداد اس کے علاوہ ہے جو ان کو بینیظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دی جا رہی ہے۔یوٹیلیٹی سٹور زکارپوریشن کو ہدایت کی ہے کہ دس کلو آٹےکا تھیلا چار سو روپے میں فروخت کیا جائے۔

شہباز شریف نے کہا کہ عمران حکومت نے صرف ملک کے اندر ہی خرابی پیدا نہیں کی، ملک کے باہر بھی پاکستان کو مشکلات سے دوچار کیا ہے۔’’ دوست ممالک کو ناراض کر دیا گیا۔ دو طرفہ تعلقات کی بحالی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔‘‘

انہوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ متنازعہ معاملات پر گفتگو کا عمل بحال کرنے کے لیے پانچ اگست سے پہلے کی پوزیشن پر آئے ۔’’بھارت کی ذمہ داری ہے کہ پانچ اگست کے غیر قانونی اقدام کو ختم کرے تاکہ با مقصد بات چیت کے ذریعے جموں و کشمیر کے متنازعہ معاملات کو حل کرنے کی جانب پیش قدمی ہو۔‘‘

وزیراعظم نے نیشنل ایکشن پلان پر بھی موثر انداز میں عمل درآمد کا عندیہ دیا۔ بقول ان کے، ’’ دہشتگردی کا فتنہ دوبارہ سر اٹھا رہا ہے۔ صوبوں کے ساتھ مل کر نیشنل ایکشن پلان کی بحالی شروع کر دی ہے، قومی مفاد سے جڑے منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے بھی یہ بے حد ضروری ہے۔‘‘

قوم سے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے میڈیا کی آزادی پر بھی گفتگو کی۔’’گزشتہ دور میں میڈیا کی آزادی چھین لی گئی۔ صحافیوں کو سخت مشکلات سے گزارا گیا۔ آزادی اظہار کے انڈیکس میں پاکستان کئی درجے نیچے چلا گیا اور ملک صحافت میں بدترین ملک شمار ہوا اور سابق وزیراعظم کو اس حوالے سے بدترین آمر قرار دیا گیا۔‘‘

بقول ان کے، ''ہم نے میڈیااور اظہار رائے کی آزادیاں چھیینے کے مقصد سے بنائے گئے میڈیا ریگولیٹری ادارے کو ختم کر دیا ہے''۔

وزیراعظم نے ملکی معیشت پر سیاست نہ کرنے اور چارٹر آف اکانومی کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ ’’ پونے چار سال قبل میں نے بطور قائد حزب اختلاف چارٹر آف اکانومی کی تجویز دی تھی جسے حقارت سے نظر انداز کر دیا گیا، یہ وقت کی ضرورت ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کا آغاز کر رہا ہوں تاکہ کوئی بھی سیاستدان معیشت کے ساتھ کھلواڑ نہ کر سکے۔‘'

انہوں نے کہا کہ ''ہم اپنے ہر فیصلے پر عوام کی عدالت میں جوابدہ ہوں گے''۔

سیاسی جماعتوں کا ردعمل

تحریک انصاف کے سینئر راہنما اسد عمر نے شہباز شریف کے قوم سے خطاب پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ یہ لوگ حکومت کی اہلیت نہیں رکھتے۔ روز بہ روز ملک کو دلدل میں پھنساتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ عمران خان نے مشکل فیصلے کیے تھے، کرپشن پر لیکچر شہباز شریف کی زبان سے اچھا نہیں لگتا۔

ایک ٹویٹ میں اسد عمر نے یہ بھی کہا ہے کہ پیٹرول کی قیمت میں 30 روپیہ اضافہ کرنے والوں کو اب سمجھ آئی جب ہم بتاتے تھے کے مہنگائی عالمی وجوہات سے ہو رہی ہے اور عمران خان کے تمام فیصلے اپنی قوم کو جس حد تک ممکن ہو اس عالمی مہنگائی سے بچانے کے لئے ہوتے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آیا پی ڈی ایم والے اب شہباز شریف کے خلاف بھی مہنگائی مارچ کریں گے۔

پیپلز پارٹی کے راہنما مصطفی نواز کھوکھر نے بھی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ فریش مینڈیٹ والی حکومت کو کرنا چاہیے۔

  • 16x9 Image

    اسد حسن

    اسد حسن دو دہائیوں سے ریڈیو براڈ کاسٹنگ اور صحافتی شعبے سے منسلک ہیں۔ وہ وی او اے اردو کے لئے واشنگٹن ڈی سی میں ڈیجیٹل کانٹینٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG