رسائی کے لنکس

شفیلہ قتل کیس: والدین کو عمر قید کی سزا


غیرت کے نام پر قتل
غیرت کے نام پر قتل

جسٹس ایونز نے اپنے ریمارکس میں شفیلہ کے والدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں اپنی بیٹی کے پیار سے زیادہ معاشرے میں بدنام ہونا نامناسب لگا، جس سے ایک معصوم لڑکی قتل ہوگئی

برطانوی عدالت نے، غیرت کے نام پر اپنی 17 سالہ بیٹی کو قتل کرنے کے الزام ثابت ہونے پر، مقتول شفیلہ احمد کے والدین کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

شفیلہ احمد ستمبر 2003ء میں وارنگٹن میں واقع اپنے گھر سے لاپتا ہوگئی تھیں اور چھ ماہ بعد اُس کی لاش دریائے ٹیمز سے ملی تھی۔

شفیلہ احمد کے والدین اپنی بیٹی کے قتل میں ملوث ہونے سے مسلسل انکار کرتے رہے۔ لیکن، 2010ء میں شفیلہ احمد کی بہن علیشہ احمد نے پولیس کو ایک بیان میں بتایا کہ اُس کے والدین نے دیگر بچوں کے سامنے شفیلہ احمد کے منہ میں پلاسٹک بیگ ٹھونس کر اُسے قتل کردیا تھا۔

علیشہ نے پولیس کو بتایا کہ اس کی بہن شفیلہ احمد کے مغربی طرز زندگی اپنانے پر اس کے والدین ناخوش تھے اور یہ کہ ایشیائی طرز کے کپڑے پہننے اور ارینجڈ میرئیج سے انکار پر، مارنے سے قبل اُسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا۔

علیشہ نے روتے ہوئے پولیس کو بتایا تھا کہ پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ اُنھوں نے میری معصوم بہن کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا۔

برطانوی پولیس 2010ء تک شفیلہ کے والدین کے خلاف کوئی ثبوت ڈھونڈھنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔

لیکن، علیشہ کے بیان کے بعد شفیلہ کے والدین افتخار اور فرزانہ احمد کے گھر میں خفیہ جاسوسی آلات نصب کیے گئے جس میں مجرمان کو قتل کی سزا سے بچنے کے اقدامات پر گفتگو اور میڈیا کے ذریعے خود کو بے قصور قرار دلوانے کی تراکیب پر بات چیت کرتے سنا گیا۔ جمعے کے روز چیسٹر گراؤن عدالت کے جج نے شفیلہ کے والدین کو اپنی بیٹی کے قتل کا قصور وار ٹھہراتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی۔

دونوں میاں بیوی کو کم از کم 25 سال جیل میں گزارنے ہوں گے۔

جسٹس ایونز نے اپنے ریمارکس میں شفیلہ کے والدین کو مخاطب کوتے ہوئے کہا کہ تمہیں اپنی بیٹی کے پیار سے زیادہ معاشرے میں بدنام ہونا نامناسب لگا، جس سے ایک معصوم لڑکی قتل ہوگئی۔

برطانیہ میں 14لاکھ پاکستانی نژاد لوگ آباد ہیں اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات اکثر و بیشتر مغربی میڈیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔

یہ واقعات کیوں ہوتے ہیں؟ اُنھیں ثقافت اور تہذیبوں کا ٹکراؤ کہا جائے یا پاکستان سے آنے والے والدین کی مغربی روایات اور ثقافت سے ناآشنائی؟

لارڈ طارق نے، جو خود بھی ایک پاکستانی نژاد برطانوی پارلیمنٹیرین ہیں، وائس آف امریکہ سے بات چیت میں کہا کہ یہ ایک بڑا افسوسناک اور خوفناک واقعہ ہے۔ عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے وہ لازمی بات ہے پوری چھان بین کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکثر ایشیائی کمیونٹی میں، جس میں پاکستانی نژاد لوگ بھی شامل ہیں، یہ چیزیں اب بھی ہو رہی ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ جب کہ مذہبی تعلیم یہ ہے کہ بچوں کو پیار سے سمجھایا جائے سختی سے نہیں، لیکن اکثر لوگ مذہب کو معاشرے سے آگے رکھتے ہیں۔ لیکن جو لوگ ایسا سوچتے ہیں اُنھیں برطانیہ کے قانون، عدالتوں اور سزا کو سامنے رکھنا ہوگا۔
XS
SM
MD
LG