رسائی کے لنکس

شنزو آبے: طویل ترین عرصے تک جاپان کے وزیرِ اعظم رہنے والے راہنما


جاپان کے سابق وزیرِ اعظم شنزو آبے کی قاتلانہ حملے میں ہلاکت نے پورے جاپان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا بھر میں سابق جاپانی وزیرِ اعظم کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں جاپان جیسے ملک میں سیاسی رہنما کے قتل پر حیرانی کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔

اکیسویں صدی میں جاپان کے سیاسی منظر نامے پر چھائے رہنے والے شنزو آبے نے نہ صرف جاپانی معیشت کو ازسر نو مربوط کیا بلکہ جاپان میں کئی اصلاحات متعارف کرانے کا سہرا بھی اُن کے سر جاتا ہے۔

جاپان کی لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے شنزو آبے جاپان پر طویل ترین عرصے تک حکومت کرنے والے سیاست دان تھے۔ وہ 2006 میں ایک برس کے لیے جب کہ 2012 سے لے کر 2020 تک اس منصب پر فائز رہے اور اس دوران آنے والے کئی چیلنجز سے نبرد آزما ہوئے۔

شنزو آبے 52 برس کے تھے جب 2006 میں وہ پہلی مرتبہ وزارتِ عظمی کے منصب پر فائز ہوئے۔ وہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جاپان کے وزیرِ عظم بننے والے سب سے کم عمر سیاست دان تھے۔

اُنہیں جاپان کی سیاست میں تبدیلی کا استعارہ سمجھا جاتا تھا جب کہ نوجوان طبقے میں بھی وہ خاصے مقبول تھے۔ وہ جاپان کے ایک قدامت پسند اور صاحب ثروت گھرانے میں 1954 میں پیدا ہوئے۔

سن 2006 میں وزارتِ عظمی کی کرسی اُن کے لیے مصائب اور مشکلات پر مشتمل رہی جب آئے روز اسکینڈلز اور پارٹی اختلافات کے باعث اُنہیں ایک برس بعد ہی مستعفی ہونا پڑا۔

ابتداً وزارتِ عظمی سے الگ ہونے کی وجہ اُنہوں نے سیاسی بتائی، تاہم بعد میں اُنہوں نے انکشاف کیا کہ وہ آنتوں کے ورم کے مرض میں مبتلا ہیں، بعدازاں اُنہوں نے بتایا تھا کہ وہ صحت یاب ہو گئے ہیں۔

وہ سیاست میں دوبارہ سرگرم ہوئے اور 2012 میں دوبارہ وزارتِ عظمی کے منصب پر فائز ہوئے۔ جاپان میں اس وقت کوئی بھی وزیرِ اعظم اوسطً ڈیڑھ برس سے زائد عہدے پر برقرار نہیں رہ پاتا تھا، تاہم شنزو ایبے 2020 تک اس منصب پر فائز رہے۔

'ایبے نومکس'

وہ دوبارہ ایسے وقت میں وزیرِ اعظم منتخب ہوئے جب جاپان 2011 میں آنے والے سونامی کی تباہ کاریوں سے نمٹ رہا تھا۔ مارچ 2011 میں اس سونامی کے باعث ہزاروں جاپانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس کے باعث جاپان کے نائیجی جوہری پلانٹ کو بھی نقصان پہنچا تھا جس کی تابکاری شعاعوں کی وجہ سے کئی قصبے ویران ہو گئے تھے۔

اُنہوں نے سونامی کی وجہ سے جاپان کی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات اور جوہری پلانٹ کے تابکاری اثرات سے بچنے کے لیے جامع حکمت عملی ترتیب دی تھی۔

ان مسائل سے نمٹنے کے لیے شنزو آبے کی معاشی پالیسیاں 'ایبے نومکس' کے نام سے مشہور ہوئیں اور اُنہوں نے دنیا کی تیسری بڑی معیشت کو سنبھالا دینے کی کوششوں کا آغاز کیا۔

'ایبے نومکس' کے تحت حکومت نے بڑے پیمانے پر اخراجات کیے اور معاشی پالیسوں میں نرمیاں کرنے کے علاوہ سرخ فیتے کے خاتمے کو پروان چڑھایا۔

شرح پیدائش بڑھانے کی کوششیں

شنزو آبے کے دور میں جاپان میں تیزی سے کم ہوتی ہوئی شرح پیدائش کو بڑھانے کے لیے کئی پالیسیاں متعارف کرائی گئیں۔ والدین کے لیے کام کی جگہ کو دوستانہ بنایا گیا،بالخصوص ماؤں کو زیادہ مراعات دی گئیں۔

اُنہوں نے ٹیکس اصلاحات کے ساتھ ساتھ معیشت کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کی کوشش کی، لیکن 2020 میں کرونا وائرس سے پہلے تک ملکی معیشت کے بڑے مسائل برقرار رہے۔

ایبے کے اقتدار کو دھچکہ کرونا وائرس کے دوران لگا جب اُن کے ناقدین نے اُن کی جانب سے بروقت فیصلے نہ لیے جانے پر سوال اُٹھائے جس کے باعث اُن کی عوامی مقبولیت میں بھی کمی آئی۔

سیاسی محاذ

شنزو آبے عالمی سیاسی منظر نامے پر بھی اہم کردار ادا کرتے رہے اور امریکی صدور سمیت کئی عالمی رہنماؤں سے اُن کے قریبی مراسم رہے۔

وہ شمالی کوریا کے رہنما کی پالیسیوں کے شدید مخالف رہے جب کہ امریکہ اور ایران تنازع کے پرامن تصفیے کے حامی رہے۔

وہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 'سب سے پہلے امریکہ' کے نعرے کے باوجود امریکہ اور جاپان کے دیرینہ اتحاد کو برقرار رکھنے جب کہ روس اور چین کے تعلقات میں بہتری کے لیے بھی کوشاں رہے۔

عالمی سیاست کے علاوہ اندرونِ خانہ بھی ایبے کو مختلف چیلنجز کا سامنا رہا، تاہم آٹھ سالہ دورِ اقتدار کے دوران کئی اُتار چڑھاؤ آنے کے باوجود وہ اقتدار میں رہے۔

شنزو آبے 2021 تک جاپان کے وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز رہ سکتے تھے، لیکن 2020 میں اچانک بیماری کی وجہ بتاتے ہوئے وہ وزارتِ عظمی سے الگ ہو گئے۔

اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG