رسائی کے لنکس

جوتوں سے سیاسی مقاصد کا حصول


جوتوں سے سیاسی مقاصد کا حصول
جوتوں سے سیاسی مقاصد کا حصول

ہمارے معاشرے میں جوتے کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔یہ مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے مختلف کاموں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اور آج کل تو اس سے وہ کام بھی لئے جارہے ہیں جو شاہد پہلے نا لئے گئے ہوں۔ جوتا جہاں ہمارے پاؤں کو تحفظ فراہم کرتا ہے وہیں گھر میں معصوم بچے سے لیکراقتدار والوں تک کے لئے خطرے کی علامت بن گیا ہے ۔


پہلے پہل جوتے کو صرف پاؤں میں پہننے کے لئے ترجیح دی جاتی تھی اور اس کے علاوہ چھوٹے موٹے کام لیے جاتے تھے ۔ مثال کے طورپر بعض خواتین اس سے من چلوں کو سیدھی راہ دکھانے کا کام لیتی تھیں اور بعض اونچی ایڑھی والے جوتوں کو بطور لائسنس والا ہتھیارتصور کرکے اپنے پاس رکھتی تھیں۔


پرانے زمانوں میں اگر کسی گاؤں میں کوئی چور پکڑ لیا جاتا تھا تو مشہور ہے کہ اس کا منہ کالا کر کے اسے گدھے پر بٹھا یا جاتا تھا اور اس کے گلے میں جوتوں کا ہار پہنایا جاتا تھا ۔ بعض اوقات یہ جوتا ہمیں کسی گھر کے دروازے پر ،یا کسی ٹرک ،بس ،رکشہ وغیرہ کے سامنے بھی لٹکا نظر آتا ہے جس کا مقصد ان اشیاء کو نظر بد سے بچانا ہوتاہے ۔


ہمارے یہاں شادی بیاہ کے موقعوں پر بھی عموماً جوتوں کی قدربڑھ جاتی ہے۔جی ہاں ہماری مراد جوتا چھپائی سے ہے ۔ دلہا جب دلہن کو لینے بارات کے ہمراہ اپنے سسرال جاتا ہے تو اس کے جوتے چھپا دیئے جاتے ہیں اور دلہن کی سہیلیاں دلہے کو جوتا چھپا کر تنگ کرتی ہیں اور اپنے مطالبات تسلیم کرانے کے بعد ہی جوتے واپس کرتی ہیں ۔


اس کے علاوہ جوتوں سے بہت سے علاج بھی قابل ذکر ہیں۔ مثال کے طور پر کہتے ہیں کہ اگر مرگی کے دورے میں مریض کو جوتا سونگھا دیا جائے تو اس کی طبیعت سنبھل جاتی ہے۔ اللہ جانے یہ نسخہ کس قدر کار گر ہے ۔ ہے بھی کہ نہیں مگر کہا یہی یہ جاتا ہے کہ مرگی کا دورہ پڑے تو مریض کو جوتا سنگھا دو۔


اس کے علاوہ اردو زبان کا ایک محاورہ بھی جوتے کے گرد گھومتا ہے۔ اور وہ ہے۔۔۔ جوتوں میں دال بٹنا ۔


جوتوں کو چھتر کے طور پر بھی استعمال کرنے کی روایت ہے۔ ہماری پولیس کاچھترول میں کوئی ثانی نہیں ۔ حالیہ دور میں پولیس کی جانب سے چھترول کے بہت سے واقعات ٹی وی پردیکھنے کے بعد اب توہمارے ہاں اس کی اہمیت میں اور بڑھ چکی ہے ۔ لہذا ملزمان کو سب سے پہلے تھانے میں لفظ چھترول ہی سے ڈرایا جاتا ہے ۔


بعض غصیلے لوگوں کی زبان پر بھی لفظ جوتا عام رہتا ہے ، جیسے اگر انہیں کوئی کام پسند نہ ہو تو وہ برہم ہوکر کہتے ہیں میرے جوتے کی نوک پر!


خیر جوتے سے متعلق یہ ساری باتیں تو بہت پہلے سے چلی آ رہی ہیں لیکن دسمبر دو ہزار آٹھ کے بعد جوتے نے جس طرح دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے شاید ہی اس سے قبل ایسا ہوا ہواور اس کا تمام تر کریڈیٹ عراقی صحافی منتظرالزیدی کو جاتا ہے جنہوں نے جو توں سے سیاسی غم و غصے کے اظہار کا طریقہ اپناکر ایک غیر مقبول امریکی صدرکے مقابلے میں بے پناہ عالمگیر شہرت پائی اور اس طرح لوگوں کو اپنی رائے کے اظہار کا ایک اور طریقہ بھی بتا گئے۔ بغداد میں منتظر الزیدی نامی صحافی نے اس وقت کے امریکی صدرجارج ڈبلیو بش کے خلاف جوتے اچھالے تھے۔ اس صحافی کے یکے بعد دیگرےدو جوتوں کے حملے صدر بش بڑی خوبصورتی سے ڈاج کر گئے لیکن اس حملے کی وڈیو دنیا بھر کے ٹی وی اسکرینز پر اب بھی کبھی کبھی دکھائی دے جاتی ہے۔


اس واقعے کے بعد محققین نے عرب معاشرے میں اور خاص طور پر عراق میں جوتے مارنے کی روایت تلاش کی اور اسی کے مطابق عراق میں مخالفین کو جوتے مارنے اور بر بھلا کہنے کی روایت بڑی قدیم ہے۔ عرب معاشرہ میں جوتے کا تلا دکھانے یاجوتا مارنے کو توہین تصور کیا جاتا ہے۔ عراق میں تو حکمرانوں پر پاپوش زنی کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔قدیم روایت ہے کہ بابل و نینوا کی تہذیب کا مشہور جنگجو حکمراں بخت نصر اس وقت تک جوتوں سے پٹواتا تھا جب تک کہ وہ اپنی زندگیوں سے ہاتھ نہ دھو بیٹھتے۔


عراق کے آخری بادشاہ فیصل اور ان کے وزیر اعظم نوری السعید کے خلاف فوجی انقلاب کی کامیابی کے بعد مشتعل ہجوم نے ان دونوں کو بغداد کی سڑکوں پردھکیل کراتنے جوتے مارے کہ وہ جا ں بحق ہوگئے۔ بادشاہت کے ان جنونی مخالفوں نے اسی پر بس نہ کیا بلکہ گھنٹوں ان کی لاشیں گلی کوچوں میں گھسیٹتے پھرے۔

عراقی فوجی حکمرانوں عبدالکریم قاسم اور جنرل عبدالحکیم عارف کو بھی جب یکے بعد دیگرے جوابی فوجی انقلابات کے نتیجے میں سر عام پھانسی نصیب ہوئی تو تماشائیوں کی بڑی تعداد ان کی لٹکتی لاشوں کی نعلین سے تواضع کرتی رہی۔

عراقی صدر صدام حسین نے اپنے تین منحرف دامادوں کی وطن واپسی پرعام شہریوں سے اتنے جوتے لگوائے تھے کہ تینوں کی لاشیں بھرتہ بن کر ناقابل شناخت ہوگئی تھیں۔


سن2003ء میں صدام کی حکومت کاتختہ الٹنے اورعراقیوں کی جانب سے صدام حسین کے دیو قامت مجسمہ کو زمین بوس کرکے اس پر جوتے برسائے گئے۔


چینی وزیر اعظم وین جیاباوٴ اور ایرانی صدر احمدی نژاد وغیرہ پر جوتے پھینکنے کے واقعات پیش آ چکے ہیں لیکن ایشیا میں پاپوش زنی کی رسم کا سب سے زیادہ چرچا گزشتہ سال بھارت میں میں دیکھا گیاجہاں وزیراعظم من موہن سنگھ ،ایل کے ایڈوانی اور چدم برم پر بھی جوتے اچھالے گئےَ ۔ادھر استبول میں آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر پرجوتا پھینکا گیا۔


ان تمام واقعات میں سب سے زیادہ تکلیف میں رہے سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم ۔انہیں سندھ اسمبلی میں جوتا پھینک کرنہیں مارا گیا بلکہ پکڑ کرنشانہ بنایاگیا۔ گزشتہ دنوں برمنگھم میں ایک ادھیڑ عمر شخص نے صدر آصف علی زرداری کی جانب بھی جوتوں کی جوڑی پھینک کر جوتوں پر نئی بحث کا آغاز کردیا۔ اگرچہ اس واقعہ کی صحت سے حکومت انکار کرتی ہے۔ حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں۔


عالمی سطح پر پاپوش زنی کے واقعات دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اب گھر میں شرارتی بچوں کے ساتھ ساتھ اہم شخصیات کے لئے تقریبات میں بلٹ پروف اور فول پروف انتظامات کے ساتھ ساتھ شو پروف انتظامات بھی کیے جائیں گے۔

XS
SM
MD
LG