رسائی کے لنکس

سندھ کا نقشہ ہی بدل گیا!


سکھر میں سیلاب سے متاثرہ ایک گوٹھ
سکھر میں سیلاب سے متاثرہ ایک گوٹھ

کچھ عرصہ قبل حیدرآباد کے قریب دریائے سندھ سے گزرتے ہوئے خشک ہوتے دریا کو دیکھ کر یہ سوچا تھا کہ کیا کھبی یہ دریا پھر سے بھر سکے گا، لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ بہت ہی جلد یہاں ہر طرف پانی کی فراوانی ہوگی۔ دریا تو بھر گیا ہے مگر اپنے ساتھ بہت سی زمینوں کو غرقاب اورسینکڑوں انسانوں کی جانوں کو لے کر آگے نکل گیا ہے

ہر طرف ایک ہی خبر ہے کہ یہ سیلاب پاکستان کی تاریخ کی بدترین قدرتی آفت ہے۔ ٹی وی پر تباہی کی عکاسی جہاں ممکن نہیں وہاں لفظوں کے ذریعے اس آفت کی سنگینی کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنا بھی قدرے مشکل ہے۔ ملک کے شمال مغربی حصوں اور پنجاب میں تباہی کی بے شمار کہی اور ان کہی داستانوں کو اپنے پیچھے چھوڑنے کے بعد یہ پانی سندھ میں تباہی پھیلا رہا ہے جہاں صوبے کے جنوب میں جیکب آباد سے لے کر خان پور تک اور شمال میں کوٹ سبزل سے لے کر دولت پور تک کوئی ایسا علاقہ نہیں جو اس آفت سے محفوظ رہا ہو۔

دریائے سندھ اب اپنی حدود میں نہیں رہا اس لیے یہاں کچے کے علاقے میں جہاں تک نظر جاتی ہے وہاں پانی ہی پانی ہے اور کناروں پر خیموں میں وہ متاثرین جو دن رات اس پانی میں اپنی تباہی کے لمحوں کو اب بھی بے یقینی سے دیکھتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے پیسہ اتنی اہمیت نہیں رکھتا جتنا کہ اپنی زمین اور مویشی، یہی ان کی دولت ہیں مگر اب ان کی زمین پانی میں اورمویشی ڈوب کر مرچکے ہیں۔ نہ سروں پر چھت ہے نہ خوراک اور نہ ہی کوئی اور ذریعہ معاش، ایسے میں جہاں انھیں مستقبل کی فکر لاحق ہے وہاں کھلے آسمان تلے اپنی خواتین اور بچوں کو محفوظ رکھنا ان کی اولین ترجیح ہے۔

راضی ڈیرو ضلع خیرپور کے شہر گمبٹ سے بیس سے پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر کچے کا ایک علاقہ ہے جہاں تین ہفتے قبل ہرتھوڑے فاصلے کے بعد کئی دیہات آباد تھے مگر دریا سے راضی ڈیرو بند تقریباً چھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہونے کی وجہ سے یہاں تمام دیہات صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔

یہاں آکر یہ گمان ہی نہیں ہوتا کہ کبھی یہاں کوئی انسان آباد رہا ہوگا۔ دریا کے ساتھ یہ زمین اب دریا کا حصہ ہی معلوم ہوتی ہے۔ گوٹھ علی داد سال کے رہائشی فتح محمد کھوڑو اپنے خاندان کے ساتھ یہاں آباد تھے۔ انھیں انتظامیہ نے سیلاب کی پہلے ہی اطلاع دے دی تھی لیکن یہ لوگ سنی ان سنی کرگئے۔ فتح محمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ”ہمارے آباؤ اجداد کہتے تھے کہ یہاں سے پہلے 13لاکھ کیوسک تک کا پانی گزر چکا ہے لیکن اس علاقے کو کچھ نہیں ہوا، اس لیے اُس کو ہم نے ذہن میں رکھ کر سوچا کہ اب 11لاکھ کیوسک پانی گزر رہا ہے تو نقصان کا کوئی خطرہ نہیں ۔ اس لیے ہم نے یہ جگہ نہیں چھوڑی ، کہ اچانک ایک رات سیلاب آگیا اور پھر ہمارے چاروں طرف پانی تھا۔ ہمیں فوج نے یہاں سے نکالا ،سیلاب نے سب کچھ بربادکردیا، نہ فصلیں رہیں اور نہ مویشی۔ بچوں کی تعلیم بھی متاثر ہوگی،ہم دس، بارہ سال پیچھے چلے گئے ہیں“۔

یہ کہانی صرف فتح محمدکی نہیں بلکہ سندھ کے ہر اس دیہات کی ہے جہاں لوگ اپنے جانور اور زمین چھوڑ کر جانے کو تیارنہیں لہذا انتظامیہ ان کے زبردستی انخلا پر مجبور ہے۔

راضی ڈیرو بند کے متاثرین میں سے اب بھی کئی خاندانوں نے مویشیوں کی وجہ سے اپنا گھر نہیں چھوڑا۔ وہ اس آفت کے ختم ہونے کے منتظرہیں۔ متاثرین نے الزام لگایا ہے کہ خیرپور اور لاڑکانہ کو ملانے والی سڑک کی تعمیر سے یہاں پانی آگے نہیں بڑھ رہا بلکہ ٹھہر گیا ہے جس کی وجہ سے یہاں دس فٹ سے زیادہ پانی کھڑا ہے اور شدید نقصان ہوا ہے۔

دوسری طرف فوج کے امدادی کیمپ کچھ وقت تک ان کی مشکلیں کم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ کیمپ میں موجودفوجی انتظامیہ کے مطابق ان متاثرین کو دو وقت کا تیار کھانا فراہم کیا جاتا ہے ، ساتھ ہی تین سو افراد کے لیے روزانہ صاف پانی اور خوراک کے دیگر سامان کے ساتھ تقریباً آٹھ سے دس گوٹھوں کو راشن بھی کشتی کے ذریعے بھیجا جارہا ہے جنہیں پانی میں پھنسے رہنا منظور ہے لیکن اپنی زمین اور بچ جانے والے مویشی چھوڑنے پر وہ رضا مند نہیں۔

گمبٹ شہر میں کپاس اور گنے کی فصلیں ہیں جن میں کپاس کی فصل مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہے۔ شہر کے دونوں اطراف کھیت بارش کے پانی میں ڈوبے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن یہاں کچھ ایسے بھی خوش قسمت ہیں جن کی فصلیں کچے کے علاقے میں ہونے کے باوجود محفوظ رہیں۔

عظیم حیدر کی بھی کافی زمین ہے جو بچ گئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جو لوگ مالی طور پر مستحکم ہیں انھوں نے ہمیشہ سے اپنے کھیتوں کے گرد مضبوط بند بنا کر رکھے تھے ۔ انھوں نے بتایا کہ یہاں ناخواندگی زیادہ ہے اور لوگوں کو آگاہی نہیں، انھیں نہیں معلوم کہ لاکھوں کیوسک پانی کتنا ہوتاہے ۔ عظیم کے بقول یہاں کے لوگ دریا کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ پانی تو آتا دکھائی نہیں دیتا لہذا کچھ نہیں ہوگا۔ اُنھوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیئے تھا کہ لوگوں کو بتاتی کہ دس ،گیارہ لاکھ کیوسک پانی کتنا ہوتا ہے اور اس کی رفتار کتنی ہوتی ہے۔

عظیم حیدر کہتے ہیں کہ یہاں انتظامیہ غیر فعال ہے کیوں کہ قبائلی نظام کا غلبہ ہے، لوگ ایک دوسرے کی خود ہی مدد کررہے ہیں۔ تمام چھوٹے چھوٹے ادارے امداد جمع کررہے ہیں لیکن وقت کے ساتھ امن وامان کا مسئلہ بھی پیدا ہورہا ہے کیوں کہ متاثرین میں سے کچھ مانگنے کی بجائے چھیننا بہتر سمجھ رہے ہیں۔

عظیم نے بتایا کہ سیلاب نے جنگلی حیات کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ سیلاب کی آمد سے کچے کے علاقے میں بڑی تعداد میں ہرن مردہ پائے گئے ہیں جب کہ گدھ شہروں کا رخ کررہے ہیں جنہیں لوگ مار بھگا رہے ہیں۔ تاہم اس بات کی تصدیق کے لیے انتظامیہ سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

حیدر آباد سے سکھر تک کچھ جگہوں پر دریائے سندھ کے مقام پر بند مضبوط کیے جارہے ہیں۔ کئی ٹرک راضی ڈیرو بند کی سطح کو بلند اور مضبوط کرنے کے لیے پتھر لے جاتے دکھائی دیے۔ اس سوال پر کہ متاثرین سیلاب کو اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا ہونے میں کتنا عرصہ لگے گا، عظیم حیدر نے کہا کہ کوئی ایک چیز ہوتی جس کی بنیاد پر آدمی کھڑا ہوتا لیکن یہاں نہ تو زمین رہی نہ چھت، نہ اناج نہ جانور، یہ لوگ بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG