رسائی کے لنکس

سندھ میں مندر نذر آتش، 1400 مقامات کو سیکورٹی درکار


مندر کی دیکھ بھال پر مامور باوٴلہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ جمعرات کی نصب شب کو اس کے مندر سے گھر جانے تک سب کچھ ٹھیک تھا. لیکن اگلے دن اس کے دوبارہ مندر پہنچنے تک سب کچھ خاکستر ہوچکا تھا۔ دینی کتب، دیوی دیوتاوٴں کی مورتیاں اور تصاویر جل چکی تھیں

کراچی ۔۔ سندھ کے چھوٹے سے ضلعے، ٹنڈو محمد خان میں ہندو برادری کا ایک مندر نذرآتش کردیا گیا۔ کچھ مورتیوں کو غائب کردیا گیا، جبکہ کچھ مذہبی کتابوں کو بھی جلادیا گیا۔ کارروائی رات کے اندھیرے میں کی گئی، حالانکہ متاثرہ مندر بہت چھوٹا اور صرف ایک کمرے پر مشتمل تھا۔

برادری کے نمائندے، ڈاکٹر گردھاری لال مرچومل نے میڈیا کو بتایا ’مندر کی دیکھ بھال پر مامور باوٴلہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ جمعرات کی نصب شب کو اس کے مندر سے گھر جانے تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ لیکن، اگلے دن اس کے دوبارہ مندر پہنچنے تک سب کچھ خاکستر ہوچکا تھا۔ دینی کتب، دیوی دیوتاوٴں کی مورتیاں اور تصاویر چل چکی تھیں۔

کچھ روز پہلے ہی خصوصی رسومات کی ادائیگی کے لئے وہاں کرشن، رام اور شیو کی مورتیاں لائی گئی تھیں، جو نامعلوم افراد کے ہاتھوں سب کی سب غائب کردی گئیں۔

متاثرہ مندر پھلیلی کینال کے قریب میر اعجاز تالپور کے فارم پر بیراج کالونی کے عقب میں واقع ہے۔ مندر ہندووٴں کی ایک برادری ’کوہلی‘ سے منسوب ہے۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نسیم آراٴ پنہور کے مطابق، پولیس کو اطلاع دی گئی ہے کہ چار نامعلوم افراد جو دو موٹرسائیکلوں پر سوار تھے، مندر کو نذرآتش کیا اور خاموشی سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ ان چاروں نامعلوم افراد کے خلاف بابو رام کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔

ایس ایس پی کا کہنا ہے کہ پولیس اور ہندو برادری ابھی تک اس واقعے کی اصل وجہ جاننے سے قاصر ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس اہلکار مندروں پر تعینات ہیں۔ لیکن، جہاں یہ سانحہ پیش آیا اس جگہ کو باقاعدہ مندر نہیں کہا جا سکتا۔ نسیم آراٴ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس نے مندر کے گرد چار دیواری بنانے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن، اس مشورے پر عمل نہیں ہوا۔

’ایکسپریس ٹریبیون‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، اقلیتی امور کے وزیر گیان چند اسرانی کے بھتیجے، موہن لال کا کہنا ہے، ’مندر کے گرد دیوار اور گیٹ دونوں موجود ہیں۔ لیکن، دیوار کی زیادہ سے زیادہ اونچائی تین فٹ ہے۔‘

متعدد سندھی قوم پرست جماعتوں نے ہندو برادری سے اظہار یکجہتی کے لئے واقعے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے۔ کراچی پریس کلب کے سامنے بھی ’پاکستان ہندو سیوا‘ نامی ایک تنظیم نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔

تنظیم کے ایک رکن، روی نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں مندر کو جلائے جانے کے خلاف تحقیقات کرانے اور ذمے داروں کو سزا دینے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔

ادھر پاکستان ہندو کونسل کے پیٹرن ان چیف اور رکن قومی اسمبلی، ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے بھی وائس آف امریکہ سے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے واقعہ کی بھرپور انداز میں مذمت بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندو برادری کو انتہاپسندوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔

ڈاکٹر رمیشن کمار وانکوانی کا کہنا ہے کہ پاکستان بھر میں کم و بیش 1400 مذہبی مقامات کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت فوری طور پر اس جانب توجہ دے اور ترجیحی بنیادوں پر اس کام کر انجام دے۔

ڈاکٹر رمیشن کمار کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے حکم پر اقلیتی برادری کی عبادت گاہوں کی سیکورٹی کے لئے فوری طور پر علیحدہ فورس بنادی جاتی تو یہ واقعہ پیش نہیں آتا۔

XS
SM
MD
LG