رسائی کے لنکس

سر کریک مسئلے کا حل صرف ماحولیاتی سفارتکاری


سر کریک۔ فائل فوٹو
سر کریک۔ فائل فوٹو

سر کریک کا تنازعہ کشمیر کے مجموعی تنازعے سے مختلف ہے۔ یہ متنازعہ علاقہ محض چھ سے سات کلومیٹر رقبے کا ہے لیکن اس میں 250 سے 300 کلومیٹر تک کا سمندری علاقہ بھی شامل ہے۔

سر کریک کا تنازعہ کشمیر میں رن آف کچھ کے جنوب میں انڈس ڈیلٹا کے 38 کلومیٹر رقبے سے متعلق ہے جو ماحولیاتی حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس تنازعے کی ابتدا برطانوی نوآبادیاتی دور میں ہوئی جب سابقہ ریاست کَچھ کے حکمران راؤ مہاراج نے 1908 میں سندھ کی انتظامیہ کے ساتھ سر کریک سے جلانے والی لکڑی کی تجارت کا معاہدہ طے کیا تھا۔ اس سلسلے میں بمبئی کی انتظامی حکومت نے 1914 میں سر کریک کا ایک نقشہ جاری کیا جس میں سرحد کو بمبئی اور سندھ کے درمیان سر کریک کے مشرقی کنارے پر دکھایا گیا تھا۔ تاہم نقشے کے ساتھ تحریری تفصیل میں کہا گیا تھا کہ سرحد سر کریک دریا کے وسطی حصے سے گزرتی ہے۔ یوں نقشے اور تحریری تفصیل میں فرق سے تنازعہ کھڑا ہو گیا جو کبھی حل نہ ہو سکا۔

1947 میں پاکستان اور بھارت کے وجود میں آنے کے بعد اس دریا کو ہی دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کے طور پر تسلیم کیا گیا لیکن 1914 کے نقشے سے پیدا ہونے والا تنازعہ حل نہ کیا گیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1965 میں ہونے والی جنگ میں کَچھ کا علاقہ بھی اُن خطوں میں شامل تھا جن کے بارے میں دونوں ممالک میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کی حکومتوں نے یہ تنازعہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں لیجانے کا فیصلہ کیا جس نے فریقین کا مؤقف سننے کے بعد 1968 میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اس فیصلے میں رن آف کَچھ کے 90 فیصد علاقے پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا۔ تاہم اس فیصلے میں سر کریک کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ لہذا اس تنازعے کا کوئی قابل عمل حل ممکن نہ ہو سکا۔

سر کریک کا تنازعہ کشمیر کے مجموعی تنازعے سے مختلف ہے۔ سر کریک کا متنازعہ علاقہ محض چھ سے سات کلومیٹر رقبے کا ہے لیکن اس میں 250 سے 300 کلومیٹر تک کا سمندری علاقہ بھی شامل ہے۔ یوں یہاں سرحد بندی کے اثرات دونوں ملکوں کی سمندری حدود پر بھی پڑتے ہیں۔ علاوہ اذیں اسٹریٹجک اور معاشی اہمیت کے علاوہ یہ رقبہ جنگلی حیات اور ماحولیات کے اعتبار سے بھی خاصا اہمیت کا حامل ہے۔ آبی حیات سے متعلق بھارت کے ممتاز سابق ماہر سلیم علی نے 1973 میں بمبئی نیچرل ہسٹری سوسائیٹی کیلئے اس علاقے کا سروے کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہاں موجود لال سروں والے سارس نما پرندے فلیمنگو کی تعداد 30,000 کے لگ بھگ تھی۔ تاہم علاقے میں زمینی تنازعے اور سیاست کے باعث ماحولیات کے تحفظ کی کوششیں ماند پڑ جانے سے ان کی تعداد مسلسل کم ہوتی گئی۔

اس وقت بھارت اور پاکستان دونوں کی جانب سے اس علاقے میں آلودگی کو کم کرنے، ماہی گیری اور جنگلات کی کٹائی سے متعلق کوئی واضح نظام موجود نہیں ہے۔

1968 سے 2000 تک دونوں ملکوں کے درمیان سر کریک کے حوالے سے کوئی جامع مزاکرات منعقد نہیں ہوئے۔ تاہم 2000 میں جب بھارت اور پاکستان نے سمندری قانون سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط کر دئے تو اُنہیں پابند کر دیا گیا کہ وہ سمندری حدود سے متعلق تنازعات کے حوالے سے اپنے اپنے کلیم مئی 2009 تک پیش کر دیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اقوام متحدہ کے کنونشن کی رو سے دونوں ممالک متنازعہ علاقے کو بین الاقوامی سمندری علاقہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتے۔

لہذا 2006 میں اُس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کیوبا کے شہر ہوانا میں ملاقات کے دوران طے کیا کہ غیر جاندار ماہرین سے سر کریک اور اس کے ملحقہ علاقے کا مشترکہ سروے کرایا جائے جس سے جائز طور پر حد بندی کر کے اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ تاہم دونوں ملکوں کی داخلی سیاسی صورت حال کے باعث اس میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ اس کے علاوہ 2008 میں ممبئی حملوں کا واقعہ پیش آیا اور اس کے ساتھ ہی دونوں ملکوں کو دہشت گرد کارروائیوں کا سامنا رہا۔ یوں سر کریک کا مسئلہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑ گیا۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کے حل سے ماحولیاتی پہلو کے علاوہ دونوں ملکوں میں ایک ایسے نظام کی بنیاد پڑ جاتی جس کے تحت سیاچن گلیشئر اور خود جموں و کشمیر کے تناعے کو مذہبی اور جذباتی پہلوؤں سے الگ کر کے حل کرنے کا موقع میسر آ جاتا۔

لہذا سوال یہ ہے کہ اس پس منظر کے ساتھ اس مسئلے کا حل کیونکر نکالا جائے۔ اس مسئلے پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں موجود تاریخی، سیاسی اور جذباتی اختلافات کے تناظر میں اس مسئلے کے حل میں کوئی پیش رفت ممکن نہیں ہے۔ لہذا اسے ان پہلوؤں سے یکسر الگ کر کے ماحولیاتی سفارتکاری سے حل کیا جا سکتا ہے۔

بھارت نے اب تک سر کریک کو بین الاقوامی مسئلہ قرار دینے کی پاکستانی تجویز کو مکمل طور پر رد کیا ہے اور کہا ہے کہ اسے صرف شملہ معاہدے کے تحت دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم کراچی یونیورسٹی کی پروفیسر شائستہ تبسم نے اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ بھارتی اہلکاروں نے متعدد بار اپنے بیانات میں خطے میں ماحولیاتی اور سائنسی بنیاد پر پاکستان سے تعاون پر آمادگی کا اظہار کیا ہے جس سے سمندری علاقوں سے متعلق دو طرفہ تنازعات کا باوقار حل نکالا جا سکے۔ بھارتی بحریہ کے ایڈمرل جے جی نڈکرنی کہتے ہیں کہ آلودگی ایک ایسا پہلو ہے جس کیلئے دونوں ملک تعاون کر کے باہمی طور پر فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ سمندر ایک غیر جانبدار میڈیم ہے جو یہ نہیں بتاتا کہ اُس کے کن حصوں میں آلودگی پھیلائی جائے اور کن حصوں میں نہیں۔ سمندری علاقوں میں موجود آلودگی کو ختم کرنے کیلئے دونوں ملکوں کے وسائل محدود ہیں۔ لہذا وہ اپنے طور پر اس بارے میں کوئی جامع حکمت عملی تیار نہیں کر سکتے۔ تاہم اگر پاکستان اور بھارت ملکر اس مسئلے کے حل کیلئے متفق ہوں تو یہ بحیرہ عرب کو ہر قسم کی آلودگی سے پاک کرنے کا مقصد خوش اسلوبی سے حاصل کر سکتے ہیں جس سے دونوں ملکوں کو بے پناہ فائدہ ہو گا۔

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سر کریک کا مسئلہ حل کرنے کیلئے جنوبی ایشائی ممالک کی علاقائی تعاون کی تنظیم سارک سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ اب تک سارک مکمل طور پر غیر مؤثر رہا ہے کیونکہ بھارت کا مؤقف ہے کہ یہ خالصتاً علاقائی تعاون کی تنظیم ہے جبکہ پاکستان اسے بین الاقوامی فورم کے تناظر میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اپریل 2007 میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں پانی، توانائی، خوراک اور ماحولیات کے حوالے سے ملکی سرحدوں سے ماورا ترقیاتی منصونے تیار کرنے پر اتفاق کر لیا گیا تھا۔ اس سمجھوتے کو بروئے کار لاتے ہوئے سر کریک کے تنازعے کا حل بھی نکالا جا سکتا ہے۔ ماہرین اس خدشے کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ سر کریک کا ڈیلٹا ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف مربوط حکمت عملی کی کامیابی میں بڑی رکاوٹ ہے اور اس کی وجہ اس مسئلے سے متعلق بھارت اور پاکستان کے شدید اختلافات ہیں۔

XS
SM
MD
LG