رسائی کے لنکس

'خاتون بچاو' اور 'بیٹی بچاو' مہمات سے صنف کی بنیاد پر تشدد کے خاتمے میں کیسے مدد ملے گی؟


خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لئے ملتان میں ہونے والی ایک ریلی کا منظر ۔ فوٹو رائٹرز
خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لئے ملتان میں ہونے والی ایک ریلی کا منظر ۔ فوٹو رائٹرز

سندھ کے شہر لاڑکانہ کے چانڈکا میڈیکل کالج میں حالیہ دنوں میں میڈیکل کی طالبہ نوشین کاظمی کی ہلاکت کو لوگوں نے فوری طور پر خود کُشی کا نام دیا، جبکہ اِس واقعہ کی اب تک پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی نہیں آئی ہے۔ یہ کہنا ہے سندھ کی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کلپنا دیوی کا، جو سمجھتی ہیں کہ خواتین کے ساتھ زیادتی یا تشدد کے واقعات میں لوگوں کو فوری طور پر اپنی رائے دینے سے اجتناب برتنا چاہیے۔

ان کے بقول، خواتین کے خلاف تشدد روکنے لئے جب تک سزاوں پر عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔ ایسے واقعات کو روکنا مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کو معلوم ہے کہ یہاں پر کوئی جزا اور سزا نہیں ہے۔ جس کے باعث خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات بار بار رونما ہو رہے ہیں۔

واضح رہے کہ پچیس نومبر کو خواتین کےخلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے حوالے سے پاکستان بھر میں ایک سولہ روزہ مہم شروع کی گئی ہے۔جس کا مقصد تشدد کو روکنا، اِس کے خلاف شعور اجاگر کرنا، خواتین کو مساوی حقوق کی آگہی دینا شامل ہے۔

یہ مہم پاکستان کے چاروں صوبوں میں اقوامِ متحدہ کے ادارے یونائیٹڈ نیشن ڈویلپمنٹ پروگرام کے تعاون سے شروع کی گئی ہے۔ یو این ڈی پی نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر مہم کے بارے میں اپنے پیغام میں کہا ہے کہ اُس وقت تک حقیقی ترقی نہیں کی جا سکتی، جب تک خواتین پر تشدد کا خاتمہ نہ کیا جائے۔

صوبہ سندھ کی ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کلپنا دیوی سمجھتی ہیں کہ پاکستان سمیت اس وقت ہر جگہ خاتون بچاو (Save Women) اور بیٹی بچاو (Save Daughter) کی مختلف مہم چل رہی ہیں۔لیکن اس کے باوجود خواتین کےخلاف تشدد اور دیگر شکایات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کلپنا دیوی نے کہا کہ برِصغیر میں خواتین کے خلاف تشدد اور قوانین کو توڑنے سے متعلق واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے قوانین پر عمل درآمد سے متعلق کوئی مہم نہیں چلائی جاتی۔ جس کی پاکستان اور دیگر ممالک کو سخت ضرورت ہے۔ خواتین پر تشدد کے خاتمے سولہ روزہ ملک گیر مہم سے متعلق کلپنا دیوی کا کہنا تھاکہ اِس مہم کا چلنا لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لئے ضروری ہے لیکن یہ مہم بھی چلانی چاہیے کہ ایسے قوانین پر عمل کیسے ہو گا۔

کلپنا دیوی سمجھتی ہیں کہ عام طور پر ایسی مہم بڑے شہروں میں تو چلائی جاتی ہیں، لیکن دور دراز کے پسماندے علاقوں جہاں ایسی مہم کی زیادہ ضرورت ہے۔ وہاں تک پیغام نہیں پہنچتا۔ انہوں نے بتایا کہ صوبہ سندھ میں اِس مہم کا آغاز وزیراعلٰی کے دفتر سے ہوا۔ پروگرام کے بعد اُنہوں نے وزیراعلٰی سے شکایات کی کہ یہ تقریب جن لوگوں کے لیے ہے، اُنہیں کیسے پتا چلے گا۔

پنجاب ویمن ڈویلپمنٹ پروگرام کی ڈائریکٹر سجیلہ نوید کے مطابق، پاکستان میں چلائی جانے والی اس سولہ روزہ مہم کے دوران صوبہ بھر میں کم عمری میں ہونے والی شادیوں، صنفی برابری کی رپورٹ اور معاشی بہبود کے سروے کے بارے میں رپورٹس پیش کی جائینگی۔ جس کے بعد اِن رپورٹس کی روشنی میں دی جانے والی تجاویز کو مرتب کر کے اُن پر کام شروع کیا جائے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سجیلہ نوید نے بتایا کہ رواں سال صنف کی بنیاد پر تشدد کے خلاف سولہ روزہ مہم میں پنجاب ویمن ڈویلپمنٹ پروگرام کا ویژن ہے کہ خواتین کو یکساں حقوق کی فراہمی کسی بھی صنفی امتیاز کے بغیر یقینی بنائی جا سکے۔ اُنہوں نے اِس حوالے سے ڈویلپمنٹ پالیسی کے اہم نکات بتاتے ہوئے بتایا کہ خواتین کے سماجی، معاشی اور معاشرتی حقوق کا تحفط سب سے اہم ہے۔ اس کے بعد خواتین کی جمہوری، اور سیاسی خود مختاری کا حق، خواتین کے لیے تعلیم اور روزگار کے یکساں مواقع کی فراہمی،خواتین کے لیے صحت کی معیاری سہولیات کی آسان دستیابی، منفی اور امتیازی رویوں کا خاتمہ اور ہر سطح پر تمام اقسام کے صنفی تشدد کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے۔

پنجاب میں تحفظ وقارنسواں کے ادارے پنجاب کمیشن آن دا اسٹیٹس آن ویمن کے ڈائریکٹر عمران قریشی کا کہنا ہے کہ اس سولہ روزہ مہم کا مقصد لوگوں میں خواتین کے حقوق سےمتعلق آگہی اور شعور پھیلانا ہے۔ جب بھی کسی مقصد کے لیے ایک دن یا زیادہ دِن مخصوص کیے جاتے ہیں تو ساری توجہ اُس پر مرکوز ہو جاتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عمران قریشی نے کہا کہ صوبہ پنجاب میں عام طور پرخواتین کے خلاف مختلف نوعیت کے جرائم ہوتے ہیں۔ جن میں سے تشدد پہلے نمبر پر ہے۔جس میں لاک ڈاون کے دِنوں میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔

عمران قریشی کا کہنا تھا کہ پنجاب کمیشن آن دا اسٹیٹس آن ویمن کی ہیلپ لائن، ای میل اور خطوط کے ذریعے سب سے زیادہ شکایات خواتین پر ہونے والے تشدد سے متعلق آتی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ صوبہ پنجاب میں خواتین کے خلاف ہونے والے ہر طرح کے تشدد کو روکنے سے متعلق کوئی مربوط قانون موجود نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے ایسے واقعات بہت کم رپورٹ ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر خواتین پر جسمانی،معاشی اور نفسیاتی تشدد کی رپورٹنگ سے متعلق کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ اُن کے بقول ایسی صورتحال میں جو خواتین اپنی شکایات اُن کے محکمہ تک پہنچاتی ہیں، اُنہیں جب پولیس میں بھیجا جاتا ہے تو پولیس کہتی ہے کہ یہ اُن کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ انہیں فیملی کورٹس یا یونین کونسل میں بھیجا جائے۔ جبکہ پنجاب بھر میں یونین کونسلیں گزشتہ تین سالوں سے پوری طرح مستعد نہیں ہیں۔ اِسی طرح خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق شکایات سامنے آتی ہیں۔ اُن کے بقول، صوبہ کے بڑے اضلاع جہاں خواتین دفاتر میں کام کرتی ہیں۔ وہاں کئی خواتین کو سرکاری اور نجی دفاتر دونوں جگہوں پر ہراساں کرنے کے واقعات کاسامنا رہتا ہے۔

لیکن عمران قریشی کے بقول، جب بھی کوئی خاتون ہراساں کیے جانے سے متعلق شکایات کرتی ہے تو اُس کے تدارک کا طریقہ کار بہت کمزور ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں انکوائری کمیٹیوں کا نہ ہونا اور قواعد پر عمل نہ ہونا جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ عمران قریشی کے بقول ایسی شکایات میں خواتین پر دباو ڈالاجاتا ہے کہ وہ صلح صفائی سے معاملے کو رفع دفع کریں۔ جس کے بعد ایسی خواتین کو مزید پریشانی اور دباو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عمران قریشی کے بقول، صوبہ پنجاب میں خواتین کو موروثی جائیداد میں حصہ نہ دینا بھی بڑے مسائل میں شامل ہے۔ جس کے تدارک کے لیے حکومت نے نیا قانون تو بنا دیا ہے۔ جس پر کئی شکایات بھی سامنے آرہی ہیں۔خاتون محتسب اعلٰی کو یہ کیسز سننے کا اختیار دے دیا گیا ہے لیکن کیسوں کی زیادتی اور دیگر دباو کی وجہ سے ان کیسز پر پیش رفت متاثر ہوتی ہے۔

عمران قریشی کا کہنا تھا کہ خواتین کےخلاف ہر قسم کے جرائم روکنے کے لیے زیادہ ادارے اور اُن کے ذیلی ادارے بننے چاہیے۔ اپنے ہی دفترکی مثال دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ صوبے کے چھتیس اضلاع کے لیے صرف لاہور میں ایک ادارہ قائم ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اِس ادارے کی کم از کم ڈویژن کی سطح پر دفاتر بنائے۔

خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کی سولہ روزہ مہم کو اقوام متحدہ کی معاونت حاصل ہے۔ جس کو تمام رکن ممالک میں اپنایا جائے گا۔ جس کے تحت بنیادی طور پر عورتوں کے خلاف ہر طرح کے تشدد کے خاتمے پر بات ہو گی۔ پاکستان میں یہ مہم وفاق کے علاوہ صوبائی حکومتیں کے تعاون سے جاری رہینگی۔

مہم کے دوران منعقد ہونے والی تقریبات میں ارکان پارلیمنٹ،حقوق نسواں کے ادارے، بشری حقوق کی تنظیمیں، ماہرین اور حکومتی شخصیات شریک ہونگی۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کو روکنے کی سولہ روزہ مہم پچیس نومبر سنہ دو ہزار اکیس سے شروع ہو کر دس دسمبر سنہ دو ہزار اکیس تک جاری رہے گی۔

XS
SM
MD
LG