پاکستان اور بھارت کےدرمیان سب سے اہم تنازع کشمیر کا ہے، جس کے باعث دونوں ملکوں کے تعلقات کبھی معمول پر نہیں آسکے ۔تاہم ایک ایسے علاقے میں جہاں ہڑتالیں اور ہنگامے آئے روز کا معمول ہیں ، ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے ایک فٹبال کوچ نے سری نگر میں سپورٹس اکیڈمی ٹرسٹ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ، اور وہ نوجوانوں کو کھیل کی جانب راغب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں خوشی کے مواقع کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن تصادم کی اس فضا میں کچھ لوگ اپنے دکھ اوربرہمی کو فٹبال کے کھیل کے ذریعے ختم تو نہیں کرسکتے ، تاہم کم کرنے کی تک و دو میں ہیں۔ یہ سب کچھ ایک سپورٹس اکیڈمی کی بدولت ہے جس کے روح و رواں کوچ و ان مارکوس ٹرویا ہیں۔ جن کا خاندان سن 2007 میں ارجنٹائن سے سری نگر آکر آباد ہواتھا۔
گزشتہ تین برسوں میں انکی ٹیم سری نگر کی سب سے بہترین فٹبال ٹیموں میں سے ایک ٹیم کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔
وان مارکوس کہتے ہیں کہ ہم نے کچھ کھلاڑیوں کی زندگیوں میں بہت مثبت تبدیلیاں دیکھیں۔ وہ سڑکوں پر احتجاج کرتے تھے۔ لیکن فٹبال کھیلنے کے باعث ان میں آگے بڑھنے کا اور ملک سے باہر جا کر کھیلنے اور پاسپورٹ حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا۔
کشمیر میں یہ سب حاصل کرنا مشکل کام بھی ہے۔پچھلے سال ٹیم کے ایک کھلاڑی بشارت بشیر بابا اور دو دوسرے کھلاڑیوں کو برازیل کی مشہور ٹیم سانٹوس فٹبال کلب کے ساتھ جاکر ٹریننگ کرنے کا موقع ملا ، لیکن بشیر کے خاندان کا ماضی اس میں مسئلہ بن گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ متعلقہ حکام نے کہا کہ میں پاسپورٹ نہیں حاصل کر سکتا کیونکہ تمہارے والد ماضی میں عسکریت پسندوں کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔
بشارت اس وقت بہت چھوٹے تھے جب انکے والد نے مجاہدین کے ساتھ تھے۔ اور اب 19 سال کی عمر میں انھیں اس مشکل کا سامنا کرنا پڑ ا۔ آخر کارمقامی حکومت کی مداخلت سے انھیں پاسپورٹ ملا۔
بشارت کے والد بشیر بابا کا کہنا تھا انکے بیٹے کی طرح کے ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو پاسپورٹ حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ پاسپورٹ آفس میں 60 ہزار ایسے کیسز ہیں اور کوئی ان پر توجہ نہیں دیتا۔جس سے نوجوانوں کا مستقبل تاریک ہو رہا ہے۔
وائس آف امریکہ نے مقامی عہدے داروں سے اس سلسلے میں بات کرنی چاہی لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن کوچ مارکوس اپنے کھلاڑیوں کے مستقبل کے بارے میں پر امید ہیں۔
مارکوس کہتے ہیں کہ ہمارے پروگرام کا مقصد یہ ہے کہ نوجوانوں میں امید کی کرن پیدا کی جائے ،اور انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ زندگی کے خواب پورے ہوسکتے ہیں۔
بشارت جیسے کھلاڑی اسی امید پر دل لگا کر کھیل رہے ہیں کہ آئندہ ان کی راہ میں پاسپورٹ بننے میں رکاوٹیں اور مسائل پیش نہ آئیں اور وہ اپنے خوابوں کو تعبیر دے سکیں۔