گزشتہ برس مغربی کنارے میں ایک زخمی فلسطینی مشتبہ حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے جرم پر بدھ کو ایک اسرائیلی فوجی عدالت نے ایک نوجوان فوجی کو قتل کا قصور وار ٹھہرایا۔
فیصلے سے قبل ملک بھر میں ریلیاں نکالی گئی تھیں اور ہنگامہ آرائی دیکھی گئی، جس کے نتیجے میں پوری قوم منقسم ہو کر رہ گئی۔
پہلی بار ایسا ہوا کہ فوج نے فلسطینی حملے کے دوران ایک فوجی کی جانب سے کیے گئے اقدام کی مذمت کی۔ تاہم زیادہ تر لوگ حیران تھے کہ ایک نوجوان اسرائیلی جو دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما تھا، اُنھیں عدالت میں ایک عام مجرم کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔
کرنل مایا ہیلر، جنھوں نے یہ فیصلہ سنایا کہا ہے کہ ’’یہ حقیقت کہ زمین پہ پڑا ہوا شخص دہشت گرد تھا، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اُس سے ناموزوں طریقے سے پیش آیا جائے‘‘۔
یہ ڈرامہ نو ماہ قبل مغربی کنارے کے شہر، الخلیل میں پیش آیا تھا، جب فلسطینیوں کے حملوں کا ایک سلسلہ جاری تھا، جنھوں نے ’’چاقو کے وار سے انتفادہ‘‘ کی تحریک چلا رکھی تھی۔ ایک فلسطینی نے ایک فوجی کو چاقو کے وار کا نشانہ بنایا، جس پر اسرائیلی فوجوں نے اُسے ٹھکانے لگانے کی کوشش کی، اور وہ زمین پر غیر متحرک پڑا ہوا تھا۔
فیصلہ سنائے جانے کے بعد، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے فیس بک پر ایک بیان کہا ہے کہ وہ چاہیں گے کہ عزاریہ کو معافی دی جائے۔
نیتن یاہو نے تحریر کیا کہ ’’ہماری فوج ہی ہمارے وجود کی بنیاد ہے۔ اسرائیلی ڈفنس فورسز کے فوجی ہمارے بچے اور بچیاں ہیں، اور اُنھیں تمام تنازعات سے استثنیٰ ملنا چاہیئے۔ میں ایلور عزاریہ کے لیے معافی کے حق میں ہوں‘‘۔
صدر ریون رولین ہی وہ شخصیت ہیں جو ایسا کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اُن کے دفتر نے کہا ہے کہ صدر عدالتی عمل کے حق میں ہیں، جس میں اپیل کا نظام شامل ہے، جس کے بعد ہی کہیں وہ معافی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔
مارچ میں ہونے والا یہ واقعہ تشدد کی اس لہر کا حصہ تھا جو اکتوبر 2015ء میں شروع ہوئی۔ ان حملوں میں اب تک 28 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ اسرائیلی فورسز نے 200 فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے جن کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ وہ چھری، پستول یا کسی اور ہتھیار سے حملہ کر رہے تھے۔
اس سے پہلے انسانی حقوق سے متعلق ایک تنظیم نے منگل کو اسرائیلی فوج کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے واقعات میں ملوث اسرائیلی فوجیوں کے خلاف چلائے جانے والے مقدمات کی شرح کو "غیر معمولی طور پر کم" قرار دیتے ہوئے اس صورت حال پر تنقید کی ہے۔
’یش دن‘ نامی تنظیم جو اکثر اسرائیلی فوج کے طرز عمل پر تنقید کرتی رہتی ہے، کی طرف سے یہ رپورٹ فوجی عدالت کی طرف سے ایک اسرائیلی فوجی کے خلاف قتل کے ایک اہم مقدمے کا فیصلہ سنائے جانے سے ایک روز پہلے سامنے آئی ہے۔
اپنی سالانہ رپورٹ میں ’یش دن‘ نے کہا کہ فوج نے 2015ء کے دوران فلسطینیوں کے خلاف ہونے والے 186 مشتبہ جرائم کی تحقیقات شروع کیں۔ تاہم ان میں سے صرف چار تحقیقات ایسی تھیں جن کی وجہ سے مجرموں کو سزا سنائی گئی تھی۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ 2015 سے متعلق اعداد و شمار کی بنیاد فوج کی طرف سے سرکاری طور پر جاری کیا گیا تازہ ترین ڈیٹا ہے۔