رسائی کے لنکس

اسکواش میری زندگی ہے: جہانگیر خان


اسکواش کا کھیل
اسکواش کا کھیل

کچھ حالات، واقعات اور حادثات ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی شخص کے دماغ پر اِس قدر گہرے نقوش مرتب کرتے ہیں جِس سے اُس کی زندگی کا رخ ہی بدل جاتا ہے۔اسکواش کے بادشاہ جہانگیر خان کی زندگی کی داستان بھی کچھ ایسی ہی ہے۔

جہانگیر مشکل سے 14 سال کے ہوں گے کہ اچانک بیمار پڑ کر بہت کمزور ہوگئے۔ جب وہ صحت یاب ہوئے تو اُن کے بڑے بھائی تورسم خان نے جو خود بھی ایک نامور کھلاڑی تھے جہانگیر سے کہا کہ اُن کی دِلی خواہش ہے کہ اُن کا چھوٹا بھائی عالمی چمپین بنے۔

اِس بات کو زیادہ دِن نہ گزرے تھے کہ آسٹریلیا میں ایک میچ کھیلتے ہوئے تورسم کو دل کا دورہ پڑا اور وہ وہیں اسکواش کورٹ میں گِر کر جاں بحق ہوگئے۔

پاکستان میں جب اُنھیں سپردِ خاک کیا جارہا تھا تو جہانگیر کے دونوں ہاتھوں میں مٹی تھی، اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ وہ اپنے آپ سے کہہ رہے تھے کہ مجھے قسم ہے اُس بھائی کی جو ہم سب کو روتا ہوا چھوڑ کر جا رہا ہے کہ وہ اُن کی خواہش کی تکمیل کریں گے۔

جہانگیر نے اپنے والد روشن خان کی نصیحت کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک نئے عزم کے ساتھ کھیلنا شروع کیا۔ روشن خان خود بھی 1957ء میں برٹش چمپین شپ جیت کر عالمی اعزاز حاصل کر چکے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ چونکہ جہانگیر ابھی جسمانی طور پر بہت کمزور ہے، لہٰذا اُسے کچھ عرصے تک اسکواش کھیلنے سے گریز کرنا چاہیئے۔

اُس کے باوجود جہانگیر نے ہر وقت دوڑنا اور کھیلنا شروع کر دیا۔ وہ جب بھی اسکواش کورٹ میں داخل ہوتے، اُن کے ریکٹ پر اُنھیں اپنے مرحوم بھائی کی تصویر نظر آتی۔

جہانگیر 17سال کے ہوئے تو ایک طویل سفر طے کرکے ورلڈ اوپن یعنی عالمی چمپین شپ میں شرکت کے لیے کینیڈا پہنچے۔ سارے میچ بہت آسانی سے جیت کر فائنل میں پہنچ گئے جہاں اُن کا مقابلہ آسٹریلیا کے عظیم اور انتہائی تجربہ کار کھلاڑی جوف ہنٹ سے ہوا۔ جہانگیر کے پاؤں سے اُس وقت زمین نکلنا شروع ہوگئی جب وہ پہلی گیم 9-7سے ہار گئے۔ اُنھوں نے ہمت نہیں ہاری اور کھیل کو تیز کرتے ہوئے اپنے مخالف کو تھکانے کی کوشش کی اور وہ اگلی تین گیمز 9-1,7-9, 2-9 ،2 -9 سے جیت کر پہلی مرتبہ عالمی چمپین بن گئے۔

جہانگیر نے یہ عزم کیا ہوا تھا کہ ہر میچ میں تیز کھیل کر اپنے مخالف کو تھکانے کی کوشش کریں گے اور بعد میں ڈراپ شوٹس کھیل کر کوئی بھی مقابلہ جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

اپنی اِس حکمتِ عملی کی وجہ سے اُنھیں اگلے پانچ برسوں میں دنیا کا کوئی کھلاڑی بھی نہ ہرا سکا۔ اس دوران، دنیا بھر میں ہونے والے مقابلوں میں جہانگیر نے 555میچ جیتے۔ مجموعی طور پر اُنھوں نے دس مرتبہ برٹش اوپن چمپین شپ جیتی اور چھ مرتبہ عالمی چمپین بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب جہانگیر کی کسی بھی ٹورنامنٹ میں فتح کسی اخبار کے لیے کوئی بڑی خبر نہ سمجھی جاتی تھی۔اگر کوئی کھلاڑی جہانگیر سے ایک گیم بھی جیت جاتا تھا تو وہ کسی بھی خبر کی سرخی بننے کا حقدار سمجھا جاتا تھا۔

جہانگیر میں محنت کرنے اور میچ جیتنے کا ایک عجیب جذبہ تھا اور اُن کے بقول، اب پاکستان کے نوجوان کھلاڑی اتنی محنت نہیں کرتے جتنی کہ اُنھیں کرنی چاہیئے۔

ٹورنٹو میں اُن کے پرانے دوست اظہر سلیم کی رہائش گاہ پر وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے جہانگیر نے کہا کہ اسکواش میں کامیابی کے لیے تین ‘ایس’ کی ضرورت ہوتی ہے یعنی ‘اسپیڈ، اسٹیمنا اور اِسکل۔’

اُنھوں نے افسوس ظاہر کیا کہ بہت عرصے تک پاکستانی اسکواش کی دنیا پر چھائے رہے اور اب یوں لگتا ہے کہ جیسے اِس کھیل سے ہمارا کوئی تعلق ہی نہ رہا ہو۔

جب اُن سے پوچھا گیا کہ اخبارات نے تو پہلے ہی سے شور مچانا شروع کر دیا تھا کہ جہانگیر اور جان شیر کے بعد پاکستان کا اسکواش کی دنیا میں مستقبل تاریک نظر آتا ہے، تو اُنھوں نے کہا کہ ریٹارمنٹ کے بعد اُنھوں نے اپنے ملک میں نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت کے لیے ایک اکیڈمی قائم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وسائل کی کمی کے باعث وہ ایسا نہ کر سکے۔

اُنھوں نے کہا کہ وہ کھلاڑیوں اور اسکواش کے عہدیداران کو اکثر مشورے دیتے رہتے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کو کھلاڑیوں کی تربیت کے لیے نیا انداز اختیار کرنا پڑے گا۔ مصر، فرانس اور برطانیہ میں جِس انداز سے کھلاڑیوں کو تربیت دی جارہی ہے پاکستان کو بھی اُسی طرز کے تربیتی کیمپ لگانے پڑیں گے۔

اُنھوں نے اِس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پاکستان میں اسکواش کے ذہین کھلاڑیوں کی کمی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اسکواش کی دنیا میں پھر سے برتری حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو تربیت کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں جہانگیر نے کہا کہ کینیڈا میں پہلی مرتبہ عالمی چمپین شپ جیتنے کے بعد اِس ملک سے اُنھیں ایک جذباتی لگاؤ تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ یہاں بار بار آتے ہیں۔

جہانگیر نے کہا کہ اسکواش آج بھی اُن کی زندگی ہے اور وہ اُسی کے لیے زندہ ہیں۔

جہانگیر کئی سال تک اسکواش کے پروفیشنل کھلاڑیوں کی تنظیم کے صدر اور 2002ء سے 2008ء تک وہ اسکواش کی عالمی تنظیم کے سربراہ رہے۔ وہ آج بھی اِن اداروں کے مشیر ہیں۔

اپنے والد اور مرحوم بھائی تورسم کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں جہانگیر خان نے کہا کہ اسکواش اُن کے خون میں ہے اوروہ آخر تک اِس کی خدمت کرتے رہیں گے۔

XS
SM
MD
LG