رسائی کے لنکس

سری لنکا: پرتشدد مظاہروں میں رُکن پارلیمنٹ سمیت سات ہلاک، وزیرِ اعظم کی رہائش گاہ کا گھیراؤ


مظاہرین نے سابق وزیرِ اعظم کی سرکاری رہائش گاہ سمیت کئی املاک کو نقصان پہنچایا ہے۔ فوج کسی بھی شخص کو 24 گھنٹے تک زیر حراست رکھ سکتی ہے۔
مظاہرین نے سابق وزیرِ اعظم کی سرکاری رہائش گاہ سمیت کئی املاک کو نقصان پہنچایا ہے۔ فوج کسی بھی شخص کو 24 گھنٹے تک زیر حراست رکھ سکتی ہے۔

سری لنکا میں ملک بھر میں نافذ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئےحکومت مخالف احتجاج جاری ہے۔ اور مظاہرین وزیرِ اعظم کے مستعفی ہونے کے بعد اب ان کے بھائی اور ملک کے صدر کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

پرتشدد احتجاج میں سابق وزیرِ اعظم کی سرکاری رہائش گاہ پر حملے اور رکن پارلیمان کی ہلاکت سمیت اموات کے بعد صدر نے فوج اور پولیس کو خصوصی اختیارات دے دیے ہیں جس کے تحت وہ کسی کو بھی بغیر وارنٹ کے گرفتار کر سکتے ہیں۔

پیر کو سری لنکا میں حکومت کے حامیوں اور مظاہرین میں تصادم کے بعد پر تشدد احتجاج شروع ہوا تھا جس پر مہندا راجا پکسے نے وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ لیکن پر تشدد احتجاج ختم نہ ہو سکا اور حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے والے مشتعل افراد نے مستعفی ہونے والے وزیرِ اعظم مہندا راجا پکسے کی دارالحکومت کولمبو کے مرکز میں واقع سرکاری رہائش گاہ پر بھی حملہ کر دیا۔

اس دوران مظاہرین نے سرکاری رہائش گاہ کے شیشے توڑ دیے اور وہاں موجود املاک کو نقصان پہنچایا۔

حکام کے مطابق ہنگاموں اور احتجاج کے دوران سات افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ 200 سے زائد زخمیوں کو مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق سری لنکا کو اپنے سب سے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔ اس دوران مظاہرین نے کرفیو کی بھی پرواہ نہیں کی اور حکومتی شخصیات پر حملوں کے ساتھ ساتھ ان کی رہائش گاہوں کو بھی نشانہ بنایا گیا اور ان کاروباری مقامات یا دکانوں کو بھی نذر آتش کیا گیا جن کے مالکان کا تعلق حکومتی جماعت سے ہے۔

واضح رہے کہ پیر کو حکومتی جماعت کے ایک رکن پارلیمان اور ان کے محافظ کو بھی مبینہ طور پر مظاہرین نے قتل کر دیا تھا۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق رُکنِ پارلیمنٹ امراکیرتھی کا دارالحکومت کولمبو سے 40 کلو میٹر دورایک علاقے نیتمبوا میں مشتعل مظاہرین سے مبینہ تصادم کے نتیجے میں اُن کی تشدد زدہ لاش ایک عمارت سے برآمد ہوئی تھی۔

عرب نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق امراکیرتھی کی گاڑی کے سامنے مظاہرین آ گئے تھے جس پر فائرنگ سے ایک 27 سالہ نوجوان مارا گیا تھا جب کہ دو افراد زخمی ہوئے تھے۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ رکن پارلیمان نے خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی تھی جب کہ حکمران جماعت کا الزام ہے کہ انہیں مظاہرین نے قتل کیا ہے۔

’الجزیرہ‘ کے مطابق مہندا راجا پکسے کی جماعت کے ایک صوبائی رہنما نے بھی مظاہرین پر فائرنگ کی تھی جس سے مبینہ طور پر دو افراد ہلاک اور تین زخمی ہوگئے تھے جس کے بعد سے اس رہنما کے حوالے سے بھی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی کہ وہ کہاں ہیں۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ منگل کو صورتِ حال کنٹرول میں ہے اور صبح سے ہی کرفیو نافذ کیا جا چکا ہے۔

پولیس اور فوج کو خصوصی اختیارات مستعفی ہونے والے وزیرِ اعظم مہندا راجا پکسے کے چھوٹے بھائی اور ملک کے صدر گوتابایا راجا پکسے نے دیے ہیں جس کے تحت فوج اور پولیس کسی بھی شخص کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کر سکتے ہیں۔

فوج کسی بھی شخص کو 24 گھنٹوں تک حراست میں رکھ سکتی ہے اور تفتیش کے بعد اس شخص کو پولیس کے حوالے کیا جائے گا۔

نئے اختیارات کے تحت سیکیورٹی ادارے کسی بھی مقام یا گھر کی بزور طاقت تلاشی لے سکتے ہیں جب کہ انہیں شاہراہوں پر گاڑیوں کی بھی تلاشی لینے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی اہلکارحالیہ اختیارات کا ناجائز استعمال بھی کر سکتے ہیں جب کہ اختیارات سے تجاوز بھی کیا جا سکتا ہے۔ سری لنکا کے صدر نے جمعے کو ہی ملک میں ہنگامی حالات کے نفاذ کا اعلان کر دیا تھا۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق ملک میں 32 دن سے احتجاج جاری ہے۔ سابق وزیرِ اعظم کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر احتجاجی کیمپ میں کئی ہفتوں سے ہزاروں افراد موجود تھے البتہ منگل کو اس کیمپ میں مظاہرین کی تعداد کافی کم رہی۔

رپورٹس کے مطابق ایک دن قبل ہونے والے پرتشدد تصادم اور سخت کرفیو کی وجہ سے مظاہرین کی تعداد میں کمی آئی ہے۔

وزیرِ اعظم مہندا راجا پکسے نے مستعفی ہونے سے قبل سرکاری رہائش گاہ میں اپنے حامیوں سے خطاب کیا تھا۔ اس دوران اس اجتماع میں کئی ایسے افراد نظر آئے جن کے ہاتھوں میں آہنی ڈنڈے اور دیگر اشیا موجود تھیں۔ ان افراد نے وزیرِ اعظم کی رہائش گاہ کے سامنے حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کے کیمپ پر حملہ کیا تھا اور وہاں موجود افراد پر تشدد کیا۔ بعد ازاں مظاہرین کے کیمپ کو آگ لگا دی گئی تھی۔

حکومت کے حامیوں کی جانب سے احتجاج کرنے والے مظاہرین کے کیمپ پر مبینہ حملے کے بعد ملک بھر میں احتجاج کی لہر میں اضافہ ہوا۔ پولیس نے اس دوران ہنگاموں پر قابو پانے کے لیے واٹرکینن اور آنسو گیس کا استعمال کیا البتہ اسے کامیابی نہیں مل سکی تھی۔

سری لنکا میں سالِ نو، ملک دیوالیہ، لوگ سڑکوں پر
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:50 0:00

اسی دوران وزیرِ اعظم نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تو حکومت مخالف مظاہرین جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے وزیرِ اعظم کی سرکاری رہائش گاہ کا رخ کیا۔

واضح رہے کہ اس کے علاوہ بھی سرکاری شخصیات اور املاک پر حملوں کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ کئی مقامات پر سرکاری گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا گیا جو کہ منگل کو بھی خستہ حالت میں شاہراہوں کے اطراف موجود تھیں۔

’اے پی‘ کے مطابق منگل کو حکومت مخالف احتجاج ایک بار پھر شروع ہوا تو مظاہرین نے سری لنکا کے وزیرِ اعظم کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر نذر آتش کیے گئے کیمپ کو دوبارہ سے لگایا۔

اس کیمپ میں موجود مظاہرین وزیرِ اعظم کے استعفے کے بعد اب صدر سے بھی مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ کرونا وبا کے باعث معاشی سرگرمیاں متاثر ہونے، تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ٹیکس کٹوتیوں کی وجہ سے سری لنکا کے پاس ایندھن اور خوراک سمیت دیگر درآمدای اشیا کی ادائیگیوں کے لیےزرمبادلہ کی شدید قلت ہے۔

سری لنکا کے حکام کے مطابق ملک کے پاس صرف پانچ کروڑ ڈالر کا زرِ مبادلہ باقی رہ گیا ہے۔ حکومت نے ہنگامی طور پر معاونت کے لیے عالمی مالیاتی ادارے سے رجوع کررکھا ہے۔

راجا پکسے خاندان کا اقتدار

سری لنکا میں 2020 میں انتخابات ہوئے تھے جس میں مہندا راجا پکسے کامیابی کے بعد وزیرِ اعظم بنے تھے جب کہ ان کے بھائی گوتابایا راجا پکسے 2019 سے ملک کے صدر ہیں۔

سری لنکا میں حکومت کے خلاف احتجاج
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:13 0:00

اس سے قبل مہندا راجا پکسے 2005 میں ملک کے صدر منتخب ہوئے اور 2015 تک اس عہدے پر فائز رہے تھے۔ اس دوران ان کے بھائی اور دیگر قریبی عزیز مختلف اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ ان کا خاندان کئی دہائیوں سے سری لنکا میں برسرِ اقتدار ہے۔

راجاپکسے خاندان پر کرپشن کے الزامات اور اسکینڈلز سامنے آنے کے بعد 2015 میں مہندا راجاپکسے کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور ان کی کابینہ کے سابق وزیر میتھر پالا سری سینا صدر منتخب ہوئے۔ میتھر پالا سری سینا نے منتخب ہونے کے بعد ملک کے آئین میں دو سے زیادہ مرتبہ صدر بننے پر پابندی شامل کر دی۔

سن 2019 میں سری لنکا میں ایسٹر سنڈے کے موقع پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں کے بعد ملک میں قوم پرستی کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں راجا پکسے خاندان ایک مرتبہ پھر اپنی سیاسی حیثیت بحال کرنے میں کامیاب ہوا۔

دو مرتبہ سے زائد صدر منتخب ہونے کی پابندی کی وجہ سے اس بار مہندا راجا پکسے کے بھائی گوتابایا راجاپکسے نے صدارتی الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت حاصل کرکے کام یاب ہوئے۔

ان کی جماعت ’پودوجانا پرامونا‘ پارٹی نے حزب اختلاف کا صفایا کردیا اور اگلے ہی برس مہندا راجا پکسے پارلیمنٹ کے انتخابات کے نتیجے میں وزیرِ اعظم بن گئے تھے جو کہ پیر کو مستعفی ہو گئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG