رسائی کے لنکس

بلوچ طالبِ علم پنجاب یونیورسٹی سے اغوا نہیں ہوا، تفتیش کے لیے زیرِ حراست ہے: سیکیورٹی چیف


ہ پنجاب یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی افسر کے مطابق  بیبگرامداد بلوچ کو کراچی دھماکے کی تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا۔  بیبگرامداد بلوچ کو اغوا نہیں کیا گیا بلکہ تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔
ہ پنجاب یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی افسر کے مطابق  بیبگرامداد بلوچ کو کراچی دھماکے کی تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا۔  بیبگرامداد بلوچ کو اغوا نہیں کیا گیا بلکہ تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق پنجاب یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی افسر کا کہنا ہے کہ طالبِ علم بیبگر امداد بلوچ کو کراچی میں ہونے والے خود کش دھماکے کی تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا۔انہیں اغوا نہیں کیا گیا بلکہ وہ تفتیش کے لیے زیرِ حراست ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی سے مبینہ طور پر حراست میں لیے گئے طالب علم کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق ندیم نے پولیس سے طالب علم کو حراست میں لیے جانے کا ریکارڈ طلب کیا ہے۔

عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کو دیکھنا ہے کہ پولیس نے طالب علم کی گرفتاری کب کی اور اِسے روزنامچے میں کب درج کیا گیا؟

عدالت کے حکم پر سی سی پی او لاہور نے بلوچ طالب علم بیبگر امداد بلوچ کے مبینہ حراست میں لیے جانے کی رپورٹ عدالت میں پیش کی ہے۔

’طالب علم کو تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی افسر کے مطابق بیبگرامداد بلوچ کو کراچی دھماکے کی تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا۔ بیبگرامداد بلوچ کو اغوا نہیں کیا گیا بلکہ تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا۔

عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیبگرامداد بلوچ کو ریاستی اداروں کی جانب سے حراست میں لیے جانے سے قبل ایس ڈی پی او لاہور نے پنجاب یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی افسر کرنل ریٹائرڈ عبداللہ سے رابطہ کیا اور بیبگرامداد بلوچ کے کوائف کی تصدیق کی۔

رپورٹ کے مطابق بیبگرامداد بلوچ کو گزشتہ ماہ 28 اپریل کو سندھ کے محکمۂ انسدادِ دہشت گردی نے اپنی حراست میں لیا۔ طالب علم کو اغوا نہیں کیا گیا بلکہ کراچی میں ہونے والے خود کش بم دھماکے کے شبے میں تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔

جامعہ پنجاب سے طالب علم کو حراست میں لیے جانے کے حوالے سے پہلی بار ریاست کے اداروں کی جانب سے مؤقف سامنے آیا ہے۔

دھماکے سے ایک دن قبل کراچی میں موجودگی

پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ زیرِ حراست طالب علم دھماکے سے ایک روز قبل کراچی گئے تھے جہاں اُنہوں نے ممکنہ طور پر سہولت کاری کی تھی۔

وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں بیبگرامداد بلوچ کے گھر والوں سے رابطہ کیا تو وہ دستیاب نہ ہو سکے۔ اطلاعات کے مطابق بیبگرامداد بلوچ کے والد بلوچستان کے ضلع تربت میں سرکاری ملازم ہیں۔

یاد رہے کہ زیرِ حراست طالب علم بیبگرامداد بلوچ کے کزن محمد سلیم نے اپنے کزن کی بازیابی کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہے۔

غیر قانونی طور پر حراست میں لینے کا الزام

عدالت میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ بیبگرامداد بلوچ اسلام آباد سے پنجاب یونیورسٹی اپنے کزن کے پاس آئے تھے۔ انہیں پنجاب یونیورسٹی سے غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا ہے۔ عدالت مغوی کو بازیاب کرنے کے احکامات جاری کرے۔

کراچی یونیورسٹی میں 26 اپریل کو چینی زبان سکھانے والے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے باہر ایک خاتون نے خود کش دھماکہ کیا تھا جس کے نتیجے میں انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر سمیت تین چینی اور ایک پاکستانی اساتذہ ہلاک ہوئے تھے۔ واقعے میں ایک چینی اور ایک پاکستانی زخمی بھی ہوئے۔

بلوچستان کی علیحدگی پسند کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے واقعے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ پولیس نے چینی اساتذہ پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کے لیے چار رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی سربراہی ڈی آئی جی، سی آئی اے کراچی کریم خان کر رہے ہیں۔

بلوچ طلبہ تنظیم کا پنجاب یونیورسٹی میں دھرنا

بلوچ طلبہ تنظیم کے مطابق بیبگرامداد بلوچ اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے طالبِ علم ہیں جب کہ وہ تربت کے رہائشی ہیں۔ وہ عید کی چھٹیوں کے سلسلہ میں لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں اپنے کزن کے پاس آئے ہوئے تھے ۔ جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر کے دفتر کے سامنے بلوچ طلبہ تنظیم نے ان کی رہائی کے لیے احتجاجی دھرنا بھی دیا ہوا ہے۔

دھرنے میں شریک پنجاب یونیورسٹی میں بی ایس سوشل ورک کےسال آخر کے طالب علم ساکم بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ گزشتہ 13 دِن سے بیبگرامداد بلوچ کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں جس پر اُن کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی بلکہ اُلٹا اُنہیں دھمکایا جا رہا ہے۔

ساکم بلوچ کا کہنا تھا کہ اگر بیبگرامداد بلوچ کے خلاف کراچی دھماکے کے شواہد ہیں تو اُنہیں عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے لیکن یوں آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی بھی شہری کو ریاستی اداروں کی جانب سے حراست میں نہیں لینا چاہیے۔

اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بیبگرامداد بلوچ کو سرچ وارنٹ کے بغیر حراست میں لیا گیا ہے۔

بلوچ طالب علموں کو ہراساں کرنے کا الزام

بلوچ طلبہ تنظیم کا دعوٰی ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں رہائش پذیر طلبہ کے کوائف اور ذاتی تفصیلات فراہم کرنے کے نام پر کبھی انتظامیہ اور کبھی غیرمتعلقہ افراد کی طرف سے انهیں مسلسل تنگ کیا جا رہا ہے۔

واضح رہےکہ بلوچ طلبہ تنظیم کی جانب سے بیبگرامداد بلوچ کو گاڑی میں ڈال کر لے جانے کی ویڈیوز بھی جاری کی گئی تھیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں۔

سرکاری ادارے بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنے کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

اُن کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ٹھوس معلومات اور شواہد کی بنا پر ہی شر پسند عناصر کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔

XS
SM
MD
LG