رسائی کے لنکس

سری لنکا: بودھ مسلم فسادات کے بعد ہنگامی حالت نافذ


سری لنکا میں 2014ء میں ہونے والے بودھ مسلم فسادات کے دوران جلائی جانے والی ایک دکان کے باہر لوگ جمع ہیں (فائل فوٹو)
سری لنکا میں 2014ء میں ہونے والے بودھ مسلم فسادات کے دوران جلائی جانے والی ایک دکان کے باہر لوگ جمع ہیں (فائل فوٹو)

سری لنکا میں اس سے قبل بھی بودھ مسلم فسادات پیش آتے رہے ہیں تاہم 2015ء میں صدر میتھری پالا سرے سینا کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے ملک میں مجموعی طور پر امن رہا ہے۔

سری لنکا میں بودھ مت کے ماننے والوں اور مسلمان اقلیت کے درمیان فسادات کے بعد حکومت نے 10 روز کے لیے ہنگامی حالت نافذ کردی ہے۔

سری لنکن حکومت کے ترجمان دیا سری جایا سیکارا نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ ہنگامی حالت کے نفاذ کا فیصلہ منگل کو کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں کیا گیا۔

ترجمان کے مطابق ہنگامی حالت 10 روز کے لیے نافذ کی گئی ہے جس کا مقصد فسادات کو ملک کے دیگر حصوں تک پھیلنے سے روکنا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ کابینہ نے سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک کے ذریعے مذہبی منافرت پھیلانے اور تشدد پر اکسانے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔

سری لنکا کے وسطی ضلعے کاندی میں پیر کو ہونے والے فسادات کے بعد صورتِ حال تاحال کشیدہ ہے۔ کاندی میں پیر کو مشتعل بودھ مظاہرین نے مسلمانوں کی دکانوں کو آگ لگادی تھی جب کہ ایک مسجد پر بھی حملہ کیا تھا۔

حکومت نے علاقے میں پیر کو کرفیو نافذ کردیا تھا۔ حالات پر قابو پانے کے لیے فوج اور پولیس کی اسپیشل فورس کے دستے علاقے میں تعینات کردیے گئے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے حملوں اور فسادات میں ملوث ہونے کے شبہے میں دو درجن سے زائد ملزمان کو گرفتار کیا ہے جب کہ پولیس کی جانب سے فسادات روکنے کے لیے بروقت کارروائی نہ کرنے کی شکایات کی بھی تحقیقات کی جارہی ہیں۔

سری لنکن مسلمانوں کی سیاسی جماعت 'نیشنل فرنٹ فار گڈ گورننس' کے سیکریٹری جنرل نجاہ محمد نے عرب نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ فسادات صرف کاندی تک محدود نہیں رہے بلکہ ملک کے دیگر علاقوں تک پھیل گئے ہیں۔

سری لنکا کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے جس کی اکثریت سنہالی نسل سے تعلق رکھنے والوں پر مشتمل ہے جو بودھ مت کے ماننے والے ہیں۔ البتہ مسلمان ملک کی آبادی کا 10 فی صد اور ہندووں کے بعد دوسری بڑی اقلیت ہیں۔

سری لنکا میں اس سے قبل بھی بودھ مسلم فسادات پیش آتے رہے ہیں تاہم 2015ء میں صدر میتھری پالا سرے سینا کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے ملک میں مجموعی طور پر امن رہا ہے۔

تاہم گزشتہ سال سے دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ایک بار پھر کشیدگی سر اٹھانے لگی ہے جس کا الزام کئی حلقے سری لنکا میں تیزی سے مشہور ہونے والے بعض انتہا پسند بودھ گروہوں اور تنظیموں پر عائد کرتے ہیں۔

انتہا پسند بودھ تنظیموں کا الزام ہے کہ مسلمان بودھ مت کے ماننے والوں کو زبردستی اپنا مذہب قبول کرنے پر مجبور کر رہے ہیں اور بودھ مت کی تاریخی عمارتوں اور آثار کو بھی دانستہ طور پر نقصان پہنچارہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG