رسائی کے لنکس

مسئلۂ کشمیر کا فوجی حل ممکن نہیں: کشمیری قائدین


بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے پاکستانی کشمیر کے صدر سردار مسعود خان کے اس بیان پر مِلا جلا ردِ عمل ظاہر کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں ہے؛ اور بھارت اور پاکستان کو افہام و تفہیم کے ذریعے اسے حل کرکے جنوبی ایشیا کو ایک اور تباہ کن جنگ سے بچانا چاہیے۔

کشمیر کے سرکردہ مذہبی اور سیاسی راہنما میر واعظ عمر فاروق نے سردار مسعود خان کے بیان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جانا چاہیے اور اگر ایسا کرنا کسی وجہ سے ممکن نہیں تو بھارت، پاکستان اور کشمیری نمائندوں کے درمیان فوری طور پر سہ فریقی بات چیت شروع ہونی چاہیے۔ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ جوہری ہتھیاروں سے لیس بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک اور جنگ کو ٹالا جا سکے۔

تاہم، انہوں نے یہ بات زور دیکر کہی کہ مکالمے میں کشمیری عوام کے حقیقی نمائیندوں کی شرکت ناگزیر ہے۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ حقیقی نمائندوں سے ان کی کیا مراد ہے، تو انہوں نے کہا کہ ’’عوام کے وہ نمائندے جو ان کی خواہشات اور اُمنگوں کی ترجمانی کرتے ہوں نہ کہ بھارت کے مؤقف کی تائید و ترجمانی‘‘۔

پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے صدر نے مظفر آباد میں پاکستان نیوی اسٹاف کے 48 ویں کورس کے شرکا کے ایک وفد سے خطاب کرتے ہوئے بھارت پر ’’ضد اور ہٹ دھرمی‘‘ کا الزام عائید کیا؛ اور کہا تھا کہ ’’نئی دہلی کا یہ طرزِ عمل جنوبی ایشیا کو ایک اور تباہ کن جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے‘‘۔

اس پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے بھارتی کشمیر میں ’مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی‘ کے لیڈر اور رکن اسمبلی محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ "جہاں تک ان کی اس رائے کا تعلق ہے کہ کشمیر کا کوئی فوجی حل موجود نہیں ہے، اس بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ بلکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے جسے حد بندی لائین کی دونوں جانب تسلیم کیا جا چکا ہے‘‘۔ لیکن، ان کا یہ کہنا ہے کہ ’’بھارت کی ضد ہی حالات کو بگاڑنے کا موجب بنی ہوئی ہے۔ صرف آدھا سچ ہے۔ پاکستان بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ،"میرے خیال میں مسعود خان صاحب کو اور زیادہ جرات اور خلوص سے کام لیکر یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ پاکستان کی ضد بھی کچھ کم نہیں ہے۔"

انہوں نے بھی نئی دہلی اور اسلام آباد پر زور دیا کہ وہ کشمیر کا ایک پر امن اور پائیدار حل تلاش کرنے کے لئے فوری طور پر بات چیت کا آغاز کریں۔

اس دوران، بھارت نواز علاقائی جماعت نیشنل کانفرنس کے معاون جنرل سیکریٹری اور سابق وزیر ڈاکٹر مصطفےٰ کمال نے کہا ہے کہ ’’ہم اُس دن کا انتظار کررہے ہیں جب بھارت اور پاکستان اپنی انا اور ہٹ دھرمی کو ترک کرینگے اور آپسی تلخیوں اور رنجشوں کو فراموش کرکے مسئلہ کشمیر کا پائیدار اور پُر امن حل ڈھونڈ نکالیں گے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے مابین دشمنی کے خاتمے سے ہی خطے، خصوصاً جموں و کشمیر میں امن اور ترقی کا ایک نیا آغاز ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ "وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ دونوں ملک روشن اور تابناک مستقبل کے لئے دوستی اور آپسی مفاہمت کی نئی راہیں تلاش کریں"۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG