رسائی کے لنکس

اسرائیلی فضائیہ کے لبنان پر حملے: برازیل اور اسرائیل میں سفارتی کشیدگی


اسرائیل کے لبنان پر دو فضائی حملوں میں 14 افراد زخمی ہوئے ہیں جب کہ اسرائیلی فوج نے حزب اللہ کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اسرائیلی فوج نے لبنان کے جنوبی شہر صیدا کے قریب دو مقامات پر فضائی حملے کیے اور دعویٰ کیا ہے کہ حملوں میں حزب اللہ کے گولہ بارود اور اسلحے کے گودام کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اسرائیل اور حماس میں سات اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی جنگ کے بعد حزب اللہ اور اسرائیلی فوج کے درمیان سرحدی علاقوں میں متواتر جھڑپیں ہو رہی تھیں۔ البتہ اسرائیل نے پیر کو لبنان میں لگ بھگ 30 کلو میٹر اندر فضائی کارروائی کی ہے۔

اسرائیل نے جن مقامات کو نشانہ بنایا ہے وہ صیدا شہر سے پانچ کلو میٹر قریب غازیہ کا مقام ہے۔

لبنان کے سرکاری خبر رساں ادارے ’نیشنل نیوز ایجنسی‘ کی رپورٹ کے مطابق فضائی حملوں میں گاڑیوں کے ٹائر اور الیکٹرک جنریٹر کے کارخانوں کے گوداموں کو تباہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق حملوں میں زخمی ہونے والے 14 افراد میں زیادہ تر لبنان کے شہری اور فلسطینی شامل ہیں۔

حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل کے لبنان میں اس کی تنصیبات کو تباہ کرنے کے دعوے پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

’اے ایف پی‘ کے مطابق سات اکتوبر کے بعد اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں 285 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 269 لبنانی اور 16 اسرائیل شامل ہیں۔

یورپی یونین کا بحیرۂ احمر میں سمندری نقل و حرکت کی حفاظت کے لیے اقدامات

یورپی یونین نے کہا ہے کہ اس نے بحیرۂ احمر میں سمندر ٹریفک کی حفاظت کے لیے مشن شروع کر دیا ہے۔

صدر یورپین کمیشن کا پیر کو ایک بیان میں کہنا تھا کہ حوثیوں کے حملوں سے متاثر ہونے والی بحری نقل و حرکت کو محفوظ بنانے کے لیے مشن کا آغاز کیا ہے۔

اس مشن میں یورپ کے سات ممالک نے شامل ہونے کے اشارے دیے ہیں جن میں فرانس، جرمنی، اٹلی، بیلجیئم اور اسپین شامل ہیں۔

اسرائیل حماس جنگ شروع ہونے کے بعد سے یمن کے حوثی باغی بحیرۂ احمر اور خلیج عدن میں اُن بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جس پر انہیں شبہ ہو کہ ان کا تعلق اسرائیل سے ہے۔

امریکہ اور برطانیہ نے حوثیوں کے بحری جہازوں پر حملے روکنے کے لیے یمن میں متعدد بار فضائی کارروائی کی ہے۔

حوثی باغیوں کا ایک اور بحری جہاز پر حملے کا دعویٰ

یمن کے حوثی باغیوں نے پیر کو ایک بار پھر دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایک مال بردار بحری جہاز کو خلیج عدن میں نشانہ بنایا ہے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق برطانیہ میں رجسٹرڈ ربمیری مال بردار بحری جہاز کو آبنائے باب المندب میں حوثیوں کے حملے کے بعد ممکنہ طور پر ڈوبنے کے خطرات لاحق ہیں۔

حوثیوں کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بحری جہاز پر موجود عملہ محفوظ رہا ہے لیکن وہ کسی بھی وقت ڈوب سکتا ہے۔

حوثیوں کے حملے کا نشانہ بننے والا بحری جہاز برطانیہ میں رجسٹرڈ ہے جب کہ اس کا انتظام لبنان کے شہریوں پر مشتمل عملے کے پاس تھا۔

امریکہ کی فوج کی سینٹرل کمانڈ نے تصدیق کی ہے کہ حوثیوں نے اس جہاز پر دو دن قبل دو بیلیسٹک میزائل داغے تھے جس سے جہاز کو شدید نقصان پہنچا تھا۔

حوثی باغی کون ہیں؟ امریکہ ان پر حملے کیوں کر رہا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:20 0:00

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کی رپورٹ کے مطابق متاثرہ بحری جہاز پر خطرناک کھاد لدی ہوئی ہے۔

حوثی باغی متعدد بار یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ بحیرۂ احمر میں اس وقت تک حملے جاری رکھیں گے جب تک غزہ میں اسرائیل کی فوج کی کارروائی مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتی۔

غزہ میں 29 ہزار فلسطینیوں کی اموات

حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی محکمۂ صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی غزہ میں سات اکتوبر کے بعد جاری عسکری کارروائی اور حملوں میں اب تک 29 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

غزہ کے محکمۂ صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں 69 ہزار افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر حملہ کر کے 1200 افراد کو ہلاک اور لگ بھگ 240 کو یرغمال بنا لیا تھا۔ جن میں سے 100 سے زائد افراد کو نومبر 2023 میں ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی کے دوران رہا کر دیا گیا تھا۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے مکمل خاتمے اور تمام یرغمال افراد کی رہائی تک عسکری کارروائی جاری رکھے گا۔

حالیہ دنوں میں ایک بیان میں اسرائیل نے کہا ہے کہ اگر یرغمال افراد رہا نہ کیے گئے تو اس کی فورسز رمضان کے مہینے میں رفح میں بھی کارروائی جاری رکھیں گی۔

خیال رہے کہ غزہ کی آبادی 23 لاکھ ہے۔ جنگ کے آغاز پر اسرائیلی فورسز کی ہدایت پر شمالی غزہ سے فلسطینی آبادی انخلا کرکے جنوبی غزہ منتقل ہوئی تھی۔

بعد ازاں اسرائیلی فوج نے غزہ کے جنوبی شہر خان یونس سمیت دیگر علاقوں تک کارروائی بڑھا دی تھی جس کے سبب فلسطینی مصر کی سرحد کے ساتھ رفح کی جانب منتقل ہو گئے تھے۔

اس وقت نقل مکانی کرکے آنے والے فلسطینیوں کی بہت بڑی تعداد رفح میں خیموں میں انتہائی مشکل حالات میں مقیم ہیں جب کہ ان کے لیے اس کو آخری پناہ گاہ قرار دیا جا رہا ہے۔

شمالی غزہ کے لوگ ’جانوروں کا کھانا‘ کھانے پر مجبور
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:32 0:00

اسرائیل اور برازیل میں سفارتی کشیدگی

برازیلی صدر لوئس اناسیو لولا ڈی سلوا کے غزہ میں جاری جنگ پر حالیہ بیان کے بعد اسرائیل اور برازیل میں سفارتی کشیدگی بڑھ گئی ہے۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق صدر لولا نے غزہ میں اسرائیل کی فوج کی کارروائی کو ہولوکاسٹ سے تشبیہ دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں جاری تنازع جنگ نہیں بلکہ یہ نسل کشی ہے۔

برازیلی صدر کے بیان پر اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے کہا کہ صدر لولا ڈی سلوا نے ’سرخ لکیر عبور‘ کی ہے۔

اسرائیلی وزیرِ خارجہ یسرائیل کاٹز نے کہا ہے کہ لولا ڈی سلوا اسرائیل کی ریاست کے لیے اس وقت تک ناپسندیدہ شخصیت ہیں جب تک وہ اپنا بیان واپس نہیں لیتے اور اس پر معافی نہیں مانگ لیتے۔

یسرائیل کاٹز نے برازیل کے اسرائیل میں سفیر فریڈریکو مایر کو لولا ڈی سلوا کے بیان پر پیر کو یروشلم میں ہولوکاسٹ میموریل پر طلب کیا۔

دوسری جانب برازیل کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں بتایا کہ اس نے اسرائیل کے برازیل میں سفیر کو طلب کیا ہے۔

واضح رہے کہ برازیل کے 78 برس کے صدر لولا ڈی سلوا ماضی میں بائیں بازو کے سیاست دان رہے ہیں جب کہ انہیں برازیل اور گلوبل ساؤتھ ملکوں کی توانا آواز قرار دیا جاتا ہے۔

لولا ڈی سلوا کا بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب برازیل میں جی 20 ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات ہونے والی ہے۔ برازیل کے پاس اس وقت جی 20 ممالک کی تنظیم کی صدارت بھی ہے۔

برازیل میں جی 20 ممالک کی کانفرنس میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اور روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف بھی شریک ہوں گے۔ اس ملاقات میں غزہ میں جاری جنگ کا معاملہ بھی زیرِ بحث آنے کا امکان ہے۔

اس رپورٹ میں خبر رساں اداروں ’اے پی‘ ، ’اے ایف پی‘ اور ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG