رسائی کے لنکس

مولانا صوفی محمد کون تھے؟


مولانا صوفی محمد طویل عرصے سے بیمار تھے۔
مولانا صوفی محمد طویل عرصے سے بیمار تھے۔

کالعدم تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی کے بانی اور سربراہ مولانا صوفی محمد طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے ہیں۔ ان کی عمر 90 برس سے زائد تھی۔

مولانا صوفی محمد کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے سابق امیر ملا فضل اللہ کے سسر تھے جو گزشتہ سال افغانستان میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

مولانا صوفی محمد کو ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کے الزام میں 2009 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم، جنوری 2018ء میں پشاور ہائی کورٹ نے خرابی صحت کی بنا پر ان کی درخواستِ ضمانت منظور کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

رہائی کے بعد مولانا صوفی محمد کچھ عرصہ پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں بھی زیرِ علاج رہے۔ ان کا انتقال بدھ کی شب لوئر دیر کے علاقے میدان میں واقع اپنی رہائش گاہ میں ہوا۔

صوفی محمد کی تدفین جمعرات کی صبح ان کے آبائی علاقے کے قبرستان میں کر دی گئی۔

مولانا صوفی محمد کون تھے؟

لوئر دیر کے علاقے میدان سے تعلق رکھنے والے مولانا صوفی محمد کالعدم تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی کے قیام سے قبل جماعتِ اسلامی پاکستان کا حصہ تھے۔

چترال، سوات اور ملحقہ علاقوں میں عدالتی نظام کی عمل داری نہ ہونے کے باعث مولانا صوفی محمد نے 1982 میں اپنے دیگر ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ مل کر تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی کے نام سے اپنی علیحدہ جماعت کی بنیاد رکھی، جس کا بنیادی مقصد ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کی جدوجہد کرنا تھا۔

مولانا صوفی محمد کی تحریک نے 1994 میں اس وقت زور پکڑا جب انہوں نے ایک ماہ تک مالاکنڈ ڈویژن میں احتجاج کیا تھا۔

افغان جنگ میں شمولیت

2001 میں امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد صوفی محمد طالبان کے ساتھ مل کر امریکہ کے خلاف لڑنے کے لیے اپنے کئی ہزار ساتھیوں کے ہمراہ سرحد عبور کر کے افغانستان چلے گئے تھے۔ تاہم، کابل پر امریکی قبضے کے بعد صوفی محمد ساتھیوں سمیت پاکستان واپس آ گئے جہاں پاکستانی حکام نے انہیں حراست میں لے لیا۔

2008 میں سوات میں تحریکِ طالبان پاکستان کے نام سے نئی مزاحمتی تحریک نے جنم لیا اور سیکورٹی اداروں پر حملے شروع کر دیے۔ اس تحریک کی سربراہی ملا فضل اللہ کے پاس تھی جو صوفی محمد کے داماد تھے۔

حکومت کے ساتھ امن معاہدہ

اس دوران حکومت کے ساتھ طے پانے والے ایک امن معاہدے کے تحت مولانا صوفی محمد کو رہا کر دیا گیا تھا۔ حکومت نے سوات میں مولانا صوفی محمد کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے شرعی عدالتیں بھی بحال کر دی تھیں۔

مولانا صوفی محمد کے مطالبات تسلیم کیے جانے کے باوجود سوات میں تشدد میں اضافے اور طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر کنٹرول کے لیے فوجی آپریشن شروع کیا گیا، جس میں مولانا صوفی محمد دوبارہ گرفتار کر لیے گئے۔ فوجی آپریشن کے دوران سوات میں مولانا صوفی محمد کا ایک بیٹا بھی ہلاک ہو گیا تھا۔

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور سابق صوبائی وزیر میاں افتخار حسین نے معاہدے کے متعلق وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2008 میں مذاکرات کے دوران انہیں معلوم ہوا کہ مولانا صوفی محمد کا نہ تو اپنے کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی اور نہ ہی اپنے داماد ملا فضل اللہ کی کالعدم تحریک طالبان پاکستان پر گرفت تھی۔

مگر مولانا صوفی محمد نے دستخط شدہ معاہدے کو جلسہ عام میں خود پیش کرنے اور پڑھنے پر اصرار کیا۔ لیکن ہوا یہ کہ انہوں نے معاہدے کی شرائط پڑھنے کی بجائے عوامی اجتماع میں جمہوریت کو غیر اسلامی اور حکومت کے خلاف کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی مسلح مزاحمت کو جائز قرار دے دیا، جب کہ تحریری معاہدے میں یہ کہا گیا تھا کہ دونوں کالعدم تنظیموں کا شرعی نظام کے نفاذ کا مطالبہ تسلیم کیے جانے کے بعد اب ہر قسم کی مسلح مزاحمت کے خاتمے اور ہتھیار پھینکنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

میاں افتخار حسین نے کہا کہ بعد میں مولانا صوفی محمد نے بتایا کہ جلسہ عام میں معاہدے کی شرائط پڑھنے کی صورت میں انہیں دو خودکش بمباروں کے ذریعے ہلاک کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔

XS
SM
MD
LG