رسائی کے لنکس

چترال: خود کشی کے واقعات میں اضافہ، معاشی مسائل یا کوئی اور وجہ؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں حالیہ عرصے کے دوران خود کشی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ان واقعات کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ یہ خود کشیوں کی وجہ غربت ہے یا اس کے پیچھے دوسرے عوامل کارفرما ہیں۔

دس جون کو چترال میں ایک ہی روز خود کشی کے تین واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ خود کشی کرنے والوں میں دو خواتین اور ایک لڑکا شامل تھا۔

چترال کے علاقے لان گل اور تریح گاؤں سے تعلق رکھنے والی دو خواتین جو آپس میں کزن تھیں نے بیک وقت دریائے چترال میں کود کر جان دے دی۔ دونوں لڑکیوں کے ایک ہی وقت میں خود کشی کرنے کی وجوہات تاحال معلوم نہیں ہو سکی ہیں۔

دوسرے واقعے میں عین اسی روز چترال کے ایک اور علاقے سنوغر میں ایک 29 سالہ شخص خلیل نے نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر اپنے آپ پر چاقو کے وار کر کے خود کشی کر لی۔

چترال کے ایک سینئر صحافی سیف الرحمان عزیز کے مطابق گزشتہ 10 دنوں میں خود کشی کے چھ واقعات ہوئے ہیں جن میں سے ایک خاتون کو بچا لیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق کچھ خواتین نے دریا میں کود کر خود کشی کی۔
اطلاعات کے مطابق کچھ خواتین نے دریا میں کود کر خود کشی کی۔

خود کشی کی وجوہات

چترال کا شمار ملک کے انتہائی دور افتادہ علاقوں میں ہوتا ہے۔

رواں صدی کے اوائل تک چترال کا ملک کے دیگر علاقوں میں سردیوں کے موسم میں لگ بھگ چار پانچ ماہ تک رابطہ منقطع رہتا تھا۔ لیکن لواری ٹنل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اب چترال کا ملک کے دیگر علاقوں کے ساتھ زمینی رابطہ مکمل طور پر بحال ہو چکا ہے۔

جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے چترال میں زندگی کی سہولیات بالخصوص صحت، تعلیم اور روزگار کے مواقع بہت کم تھے۔

انہی عوامل کو مدِنظر رکھتے ہوئے چترال کے زیادہ تر لوگ عرصۂ دراز سے پشاور، اسلام آباد، لاہور یا ملک کے دیگر شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔

اسی وجہ سے چترال کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں دو سے کم کر کے ایک کر دی گئی ہے۔

تجزیہ کار غربت، پسماندگی اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی معاشی اور سماجی محرومیوں کو خود کشی کی بڑی وجہ سمجھتے ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ زبردستی شادی کے باعث بھی بعض خواتین خود کشی کر لیتی ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ زبردستی شادی کے باعث بھی بعض خواتین خود کشی کر لیتی ہیں۔

خود کشی کے اعداد و شمار

ابھی تک کسی بھی سرکاری ادارے نے چترال میں خود کشی کے واقعات کے اعداد و شمار مرتب نہیں کیے۔ تاہم بعض نجی اور غیر سرکاری اداروں سے منسلک افراد وقتاً فوقتاً خود کشی کے واقعات کے اعداد و شمار ذرائع ابلاع میں شائع کرتے رہتے ہیں۔

'چترال ٹائمز' نامی ایک نشریاتی ادارے سے منسلک سیف الرحمان عزیز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خود کشی کرنے والوں میں اکثریت خواتین کی ہے۔

اسی ادارے میں تین جون 2021 کو شائع ہونے والے ایک مضمون کے لکھاری اے ایم خان کا کہنا ہے کہ رواں برس خود کشی کے مجموعی طور پر 25 واقعات ہوئے ہیں جو پچھلے کئی برسوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔

'چترال ٹائمز' میں تین اکتوبر 2020 کو شائع ہونے والے مضمون کے مطابق 2013 سے 2019 تک چترال میں خود کشی کے مجموعی طور پر 176 واقعات رونما ہوئے تھے۔

خود کشی کرنے والوں میں 92 فی صد خواتین شامل ہیں۔ ان خواتین میں 55 فی صد شادی شدہ تھیں۔ رپورٹ کے مطابق 77 فی صد خواتین نے دریا میں چھلانگ لگا کر خود کشی کی۔

چترال ہی کے وکیل نیاز اے نیازی کے مطابق نومبر 2017 سے اپریل 2018 تک 13 خواتین نے خود کشیاں کی تھیں۔ اسی رپوٹ میں سات برس کے دوران چترال سے ملحقہ گلگت میں خود کشی کے 125 واقعات رونما ہوئے تھے۔

'ورلڈ ایشیا' نامی ایک نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق تین ماہ کے دوران چترال میں نو خواتین نے خود کشیاں کی ہیں۔ خود کشیاں کرنے والوں میں اکثریت نوجوان اور شادی شدہ خواتین کی تھیں جو مبینہ طور پر شادی سے خوش نہیں تھیں۔

چترال میں خودکشی کے واقعات پر مختصر دورانیے کی فلم

نیویارک میں عالمی فیسٹول کے موقع پر چترال میں خود کشی کے رحجان پر 30 منٹ دورا نیے کی ایک فلم 'دریا کے اس پار' نے تین ایوارڈ بھی اپنے نام کیے تھے۔ یہ فلم ایک نوجوان خاتون گل زرین کی زندگی پر مبنی ہے جو اپنے ارد گرد رہنے والے لوگوں کے رویے کے باعث ایک ذہنی بیماری کا شکار ہو کر خود کشی کر لیتی ہے۔

سیف الرحمان عزیز کے مطابق چترال میں خود کشی کے واقعات کی کسی بھی سرکاری ادارے نے تحقیق کی ہے اور نہ تفتیش، زیادہ تر واقعات میں والدین بھی معاملات کو چھپانے کی کوششیں کرتے ہیں اور تفتیش میں تعاون نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ موبائل فونز کے غلط استعمال سے بھی ان واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جب کہ خواتین کو بلیک میل کرنے کی شکایات بھی عام ہیں۔

بعض افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ چترال میں خواتین کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث دیگر علاقوں سے عمر رسیدہ افراد شادی کے لیے یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں صوبائی اسمبلی میں ایک قرارداد کے ذریعے دیگر علاقوں سے آنے والوں پر مقامی پولیس اور سول انتظامیہ سے چترال میں شادی کے لیے اجازت نامہ بھی ضروری قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

سیف الرحمان عزیر نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ چترال میں غربت اور پسماندگی کے باعث لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چترال کی روایات میں بچوں اور والدین کے درمیان کافی فاصلہ رہتا ہے اور اس دوری کے نیتجے میں بچے اور بچیاں احساس محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

چترال ہی کی کیلاش برادری سے تعلق رکھنے والے وزیر زادہ غیر مسلموں کے لیے مخصوص پر رُکن صوبائی اسمبلی اور وزیر اعلٰی کے معاون خصوصی بھی ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ چترال میں اہم مسئلہ روزگار کا ہے جس کے حل کے لیے حکومت ان علاقوں میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ان منصوبوں کی تکمیل سے چترال کے لوگوں میں احساس محرومی ختم ہو گا۔

XS
SM
MD
LG