رسائی کے لنکس

مجرمانہ ریکارڈ کے سیاسی رہنماؤں کو رکنِ پارلیمان نہیں بنایا جانا چاہیے: بھارتی سپریم کورٹ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی سپریم کورٹ نے دو انتہائی اہم فیصلوں میں کہا ہے کہ ریاستی حکومتیں ہائی کورٹ کی منظوری کے بغیر اراکینِ پارلیمنٹ و اراکینِ اسمبلی کے خلاف درج مقدمات واپس نہیں لے سکتیں۔

سپریم کورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ مجرمانہ بیک گراؤنڈ کے سیاسی رہنماؤں کو ایم پی اور ایم ایل اے نہیں بنایا جانا چاہیے۔

چیف جسٹس این وی رمنا، جسٹس ونیت سرین اور سوریہ کانت پر مشتمل بینچ نے ریاستوں میں قائم خصوصی عدالتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اراکینِ پارلیمنٹ و اراکینِ اسمبلی کے خلاف جاری مقدمات کو دوسری عدالتوں میں منتقل نہیں کر سکتیں۔

عدالتِ عظمیٰ کا یہ حکم عدالت کے ایمیکس کیوری (عدالت کے معاون) کے اس بیان کی روشنی میں اہم ہو جاتا ہے کہ اتر پردیش، اتراکھنڈ، مہاراشٹرا اور کرناٹک کی حکومتیں تعزیرات ہند کی دفعہ 321 کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سیاسی رہنماؤں کے خلاف مجرمانہ مقدمات کو واپس لینا چاہتی ہیں۔

عدالت نے تمام ہائی کورٹ کے رجسٹرارز کو ہدایت کی ہے کہ وہ خصوصی عدالتوں کی جانب سے قانون سازوں کے خلاف جاری مقدمات میں فیصلوں کی تفصیل پیش کریں۔

سپریم کورٹ نے خصوصی عدالتوں میں زیرِ التوا مقدمات کی بھی تفصیل طلب کی ہے۔

عدالت نے 2016 میں دائر ایک درخواست پر سماعت کی تھی جس میں اپیل کی گئی تھی کہ جن سیاسی رہنماؤں کو کسی کیس میں سزا سنائی جا چکی ہے ان پر انتخابات لڑنے پر تا عمر پابندی عائد کر دی جائے۔

عدالت کے معاون سینئر وکیل وجے ہنساریہ نے عدالت کو بتایا کہ اترپردیش حکومت ریاست کے مظفر نگر میں ہونے والے فسادات کے ملزموں سمیت بی جے پی اراکین اسمبلی کے خلاف درج 76 مقدمات واپس لینا چاہتی ہے۔

ریاست کرناٹک کی حکومت قانون سازوں کے خلاف درج 61 معاملات واپس لینے کی کوشش کر رہی ہے جب کہ مہاراشٹرا اور اتراکھنڈ کی حکومتیں بھی قانون سازوں کے خلاف درج مقدمات واپس لینا چاہ رہی ہیں۔

عدالت نے قانون سازوں کے خلاف درج مقدمات کی اسٹیٹس رپورٹ داخل نہ کرنے پر سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) پر سخت تنقید کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو اس مسئلے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سی بی آئی اسٹیٹس رپورٹ داخل نہیں کرنا چاہتی۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت رپورٹ داخل نہیں کرے گی تو ہم یہ کیسے سمجھیں گے کہ اسے اراکینِ پارلیمنٹ و اسمبلی کے خلاف دائر مقدمات پر تشویش ہے۔

چیف جسٹس نے سی بی آئی کو حکم دیا ہے کہ وہ 10 روز کے اندر اسٹیٹس رپورٹ پیش کریں۔ حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے سولیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے عدالت سے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ قانون سازوں کے خلاف قانونی کارروائی تیزی سے عمل میں لائی جائے البتہ اس معاملے میں کچھ مشکلات ہیں۔

انہوں نے عدالت سے اپیل کی کہ وہ رپورٹ پیش کرنے کے لیے انہیں آخری موقع دیں۔

یو پی حکومت نے وزیرِ اعلیٰ کے خلاف مقدمات واپس لے لیے

اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ہدایت پر ریاستی حکومت نے ان کے ایک مرکزی وزیر اور ایک بی جے پی ایم ایل اے سمیت 14 افراد کے خلاف 1995 میں درج مقدمات کو 17 دسمبر 2017 کو ایک حکم جاری کرتے ہوئے واپس لے لیا تھا۔

ان کے خلاف حکم امتناع کی خلاف ورزی کر کے جلسہ کرنے کے الزام کے تحت پارلیمانی حلقے گورکھپور میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ملزمان نے یہ جلسہ 27 مئی 1995 کو گورکھپور ضلع کے پی پی گنج میں کیا تھا جس میں یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز اور قابل اعتراض تقاریر کی تھیں۔

حکومت کا مؤقف

مقدمہ واپس لیتے وقت یوگی آدتیہ ناتھ نے اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خلاف مظاہرے اور دھرنوں کی وجہ سے پوری ریاست میں سیاسی بدنیتی سے 20 ہزار معاملات درج کیے گئے ہیں۔ یہ مقدمات ختم ہونے چاہیئں۔

رپورٹس کے مطابق 2017 میں برسرِ اقتدار آنے کے فوراً بعد ان کی حکومت نے الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2007 میں گورکھپور میں مبینہ طور پر نفرت انگیز تقریر کرنے کے معاملے میں ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی۔

وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف جو مقدمات درج کیے گئے ہیں وہ تمام تر سیاسی مقاصد کے تحت ہیں، لہٰذا انہیں واپس لیا جانا چاہیے۔

اس وقت اترپردیش کے چیف سیکریٹری راہول بھٹناگر نے عدالت کو بتایا تھا کہ ریاست کے محکمۂ داخلہ نے وزیرِ اعلیٰ کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔

مظفر نگر: فسادات کے ملزموں کے مقدمات

اسی طرح اترپردیش کی ایک خصوصی عدالت نے ریاستی حکومت کی یہ درخواست منظور کی تھی کہ مظفر نگر میں ہونے والے فسادات کے سلسلے میں بی جے پی کے 12 رہنماؤں کے خلاف درج مقدمات واپس لے لیے جائیں۔ ان افراد پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے فسادات کے دوران لوگوں کو تشدد کے لیے اکسایا تھا۔

یاد رہے کہ مظفر نگر کے فسادات میں 60 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

رپورٹس کے مطابق جن افراد کے خلاف مقدمات واپس لینے کی اجازت دی گئی تھی ان میں یو پی حکومت میں وزیر سریش رانا، بی جے پی ایم ایل اے سنگیت سوم اور پندتووادی تنظیم وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی سادھوی پراچی شامل ہیں۔

انتہائی اہم فیصلہ

سینئر تجزیہ کار پرتاپ سوم ونشی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو انتہائی اہم قرار دیا اور کہا کہ ایسا ہوتا رہا ہے کہ برسرِ اقتدار جماعت کے لوگوں کے خلاف درج مقدمات واپس لے لیے جاتے تھے اور اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف نئے مقدمات درج کیے جاتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام جماعتیں اور ریاستیں ایسا کرتی رہی ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق اترپردیش، کرناٹک، مہاراشٹر، چھتیس گڑھ اور اتراکھنڈ کی ریاستی حکومتیں اپنی اپنی جماعتوں کے قانون سازوں کے خلاف درج مقدمات واپس لینے کی تیاری میں تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ کوئی ایک سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ تمام جماعتیں ایسا کرتی رہی ہیں اور یہ معمول کی بات ہے۔ لیکن اب جب کہ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کی منظوری کی شرط لگا دی ہے تو اب حکومتوں کو یہ بتانا پڑے گا کہ وہ مقدمات کیوں واپس لے رہی ہیں۔

ان کے بقول، ہائی کورٹ دونوں طرف کا جائزہ لیں گی اور اگر کسی کے خلاف غلط طریقے سے مقدمہ درج کیا گیا ہے تو عدالتیں ان مقدمات کو واپس لینے کا حکم دے دیں گی۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مقدمات جاری رہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں ریاستی حکومتوں کا فائدہ یہ ہے کہ ان پر کسی بھی قسم کا الزام نہیں لگ سکے گا۔

تجزیہ کار پرتاپ سوم ونشی کا کہنا ہے کہ ایک آزاد اور صحت مند جمہوریت کے لیے یہ ایک بہت اہم فیصلہ ہے۔ عدالت کا یہی کام ہے کہ جہاں ضرورت پڑے وہ مداخلت کرے اور غلط کاموں کی حوصلہ افزائی نہ ہو۔

عوام پر منفی اثر

پرتاپ سوم ونشی نے مزید کہا کہ جب کسی سیاست دان کے خلاف کوئی مقدمہ واپس لیا جاتا ہے تو عوام پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ عام آدمی کو لگتا ہے کہ اس کو ایک چھوٹے سے معاملے میں بیس بیس برس مقدمہ لڑنا پڑتا ہے۔ برسوں تک ضمانت ہوتی ہے جب کہ سیاست دانوں کے خلاف آسانی کے ساتھ مقدمات واپس ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے مظفر نگر فسادات کے ملزموں کے حوالے سے کہا کہ جب ایسے لوگوں کے خلاف مقدمے واپس ہوتے ہیں تو شرپسندوں کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں اور وہ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ وہ کچھ بھی کریں، انہیں سیاسی پشت پناہی حاصل ہے اور اگر مقدمہ قائم بھی ہو گا تو واپس ہو جائے گا۔

دوسری جانب سپریم کورٹ کے ایک دوسرے بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مجرمانہ بیک گراؤنڈ کے لوگوں کو ایم پی، ایم ایل اے نہیں بنایا جانا چاہیے۔ چوں کہ حکومت کی جانب سے اس بارے میں کوئی قانونی انتظام نہیں کیا گیا ہے اس لیے وہ اس بارے میں کوئی حکم صادر نہیں کر سکتا۔

جسٹس آر ایف نریمن اور بی آر گوئی پر مشتمل بینچ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو اپنی ویب سائٹ کے ہوم پیج پر پارلیمنٹ اور اسمبلی کے امیدواروں کا مجرمانہ ریکارڈ شائع کرنا ہو گا۔

بینچ نے کہا کہ ہوم پیج پر ایک کیپشن ہو گا جس میں لکھا ہونا چاہیے، مجرمانہ ریکارڈ کے امیدوار۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کو ایک ایسی موبائل ایپ بنانے کی ہدایت کی ہے جس میں امیدواروں کی مجرمانہ تاریخ کی تفصیل درج ہو۔ عدالت نے اس سلسلے میں کمیشن کو ایک عوامی بیداری مہم چلانے کی بھی ہدایت دی ہے۔

اس سے قبل عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کے اعلان کے 48 گھنٹے کے اندر ان کا مجرمانہ ریکارڈ شائع کریں لیکن عدالت نے پایا کہ نو سیاسی جماعتوں نے اس پر عمل نہیں کیا اور اس طرح انہوں نے توہین عدالت کی۔

اس فیصلے پر سماجوادی پارٹی کے رام گوپال یادو کا کہنا ہے کہ پہلے بھی امیدواروں کے مجرمانہ ریکارڈ کو عام کرنا ضروری تھا۔ اس سے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیاست دانوں کے خلاف سیاسی اسباب سے مقدمے درج ہوتے ہیں اور انہیں مجرمانہ مقدمہ کہہ دیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق اس فیصلے کے نفاذ میں ان کی پارٹی کو کوئی دشواری نہیں ہے۔

شیو سینا کی رکن پارلیمنٹ پرینکا چترویدی نے کہا کہ امیدواروں کے خلاف جو مجرمانہ مقدمات ہوتے ہیں ان کی تفصیلات عوام کے درمیان ہوتی ہے۔

ان کے بقول اگر حقیقی تبدیلی لانی ہے تو الیکٹورل اصلاح کی جانی چاہیے، سیاست کو جرائم پیشہ افراد سے پاک کرنے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے۔

حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے کسی بھی سیاست دان نے مذکورہ دونوں فیصلوں پر تاحال کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG