رسائی کے لنکس

بھارت: کیا ممتا بنرجی بی جے پی مخالف اپوزیشن اتحاد قائم کر سکیں گی؟


ممتا بنرجی 2024 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے خلاف اپوزیشن اتحاد قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کے خلاف عام انتخابات میں حزبِ اختلاف کا ایک مشترکہ امیدوار سامنے لایا جائے۔ (فائل فوٹو)
ممتا بنرجی 2024 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے خلاف اپوزیشن اتحاد قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کے خلاف عام انتخابات میں حزبِ اختلاف کا ایک مشترکہ امیدوار سامنے لایا جائے۔ (فائل فوٹو)

بھارت کی ریاست مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ اور ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کی صدر ممتا بنرجی گزشتہ پانچ دن سے دارالحکومت دہلی میں ہیں اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں سے ملاقات کر رہی ہیں۔

ممتا بنرجی 2024 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے خلاف اپوزیشن اتحاد قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کے خلاف عام انتخابات میں حزبِ اختلاف کا ایک مشترکہ امیدوار سامنے لایا جائے۔

مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات میں شاندار کامیابی اور بی جے پی کو شکست سے دوچار کرنے کے دو ماہ کے بعد وہ دہلی آئی ہیں۔

انہوں نے منگل کو وزیرِ اعظم نریندر مودی سے بھی ملاقات کی تھی اور ان سے کرونا ویکسین کی مزید فراہمی پر تبادلۂ خیال کیا تھا۔

ان سے ملاقات کے بعد ممتا بنرجی نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے وزیرِ اعظم سے کرونا وائرس اور مغربی بنگال کو مزید ویکسین سمیت ادویات کی فراہمی کے سلسلے میں گفتگو کی۔

انہوں نے پیگاسس تنازعے کے حوالے سے کہا کہ وزیرِ اعظم کو اس معاملے پر ایک کل جماعتی اجلاس بلانا چاہیے اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کی نگرانی میں اس کی تحقیقات کی جائیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پیگاسس اسپائی ویئر کی مدد سے 300 سے زائد افراد کی جاسوسی کی گئی۔ حزبِ اختلاف کی جماعتیں اس معاملے کی پارلیمان کی مشترکہ کمیٹی سے تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ البتہ حکومت اس پر تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کی کارروائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔

ممتا بنرجی نے بدھ کو حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور سینئر رہنما راہل گاندھی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ اپوزیشن اتحاد کے سلسلے میں اس ملاقات کو بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

ملاقات کے بعد سونیا گاندھی کی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ممتا بنرجی نے کہا کہ سونیا گاندھی نے انہیں چائے پر مدعو کیا تھا۔ ان کے مطابق انہوں نے ملک کی سیاسی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا۔ جب کہ انہوں نے پیگاسس کے جاسوسی کے اسکینڈل اور کرونا وائرس کے سلسلے میں بھی گفتگو کی۔

مودی کی دوسری ٹرم: ملک کی سیکولر روایات پر مسلمان خدشات کا شکار
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:45 0:00

انہوں نے دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کیجری وال سے بھی ملاقات کی۔ جب کہ اس سے قبل وہ دہلی میں نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے صدر شرد پوار سے بھی ملی تھیں۔ انہوں نے کانگریس کے سینئر رہنماؤں کمل ناتھ اور آنند شرما سے بھی ملاقات کی۔

اس دوران انہوں نے متعدد بار میڈیا سے گفتگو کی۔ انہوں نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ ایسی مثالیں موجود ہیں جب راتوں رات ملک کی سیاسی صورتِ حال بدل گئی۔

انہوں نے کہا کہ 1977 میں کیا ہوا تھا۔ اس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کو شکست ہوئی تھی۔ اٹل بہاری واجپائی نے ایک سال کے اندر ہی اپنی مقبولیت کھو دی تھی۔ ہماری جمہوریت میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اپوزیشن بی جے پی کے خلاف اتحاد قائم کرنے میں سنجیدہ ہو جائے تو چھ ماہ کافی ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات کے دوران اپوزیشن اتحاد کی قیادت کریں گی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ میں نجومی نہیں ہوں۔ اس کا انحصار اس وقت کے حالات پر ہے اور اگر کوئی دوسرا قیادت کرتا ہے تو انہیں کوئی دشواری نہیں ہے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ یہ سمجھتی ہیں کہ وہ بنگال سے آکر قومی سیاست کی قیادت کر سکیں گی اور لوگ انہیں تسلیم کر لیں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ جب نریندر مودی اور امت شاہ گجرات سے آ کر حکومت کر سکتے ہیں تو وہ قیادت کیوں نہیں کر سکتیں۔

ان کے بقول مغربی بنگال کے انتخابات میں بھی یہ دونوں رہنما باہر سے ہی آئے تھے جب کہ وہ باہر سے نہیں آئی تھیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ممتا بنرجی پارلیمانی انتخابات سے بہت پہلے سے ہی زمینی سطح پر کام کر رہی ہیں۔ امید ہے کہ اس بار حزبِ اختلاف کا اتحاد قائم ہو جائے گا۔ اس سے قبل 2019 کے انتخابات کے موقع پر اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی گئی تھیں البتہ اس وقت سیاسی جماعتوں کو حکمتِ عملی تیار کرنے کے لیے کم وقت ملا تھا جس کی وجہ سے وہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی تھی۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کا متحد ہونا تو ممکن ہے مگر ایک ساتھ رہنا آسان نہیں ہے۔ اگر اپوزیشن جماعتیں صرف بی جے پی مخالف محاذ بنانے کی کوشش کرتی ہیں تو اس سے کام نہیں چلے گا۔ ان کو مثبت انداز میں ایجنڈا تیار کرنا ہو گا کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہیں اور ملک کو کیسے آگے لے جائیں گی۔

تجزیہ کار اور صحافی معصوم مراد آبادی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مغربی بنگال میں بی جے پی کو شکست دینے کے بعد ممتا بنرجی میں زبردست خود اعتمادی آ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کے دوران بی جے پی نے ممتا کے خلاف تمام تر وسائل استعمال کیے۔ انہیں سیاسی طور پر ختم کرنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ ان پر ذاتی حملے بھی کیے گئے۔ البتہ انہوں نے تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا۔

ان کے بقول مغربی بنگال کے انتخابی نتائج کے بعد سے ہی یہ بات کہی جا رہی تھی کہ ممتا بنرجی 2024 میں بی جے پی اور نریندر مودی کے متبادل کے طور پر ابھر کر سامنے آ سکتی ہیں اور وہ اپوزیشن کی جانب سے وزیرِ اعظم کا امیدوار بن سکتی ہیں۔

انہوں نے اپوزیشن کی اس خامی کی جانب اشارہ کیا کہ اس میں بہت انتشار ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے اپنے عزائم ہیں اور ہر اپوزیشن لیڈر وزیرِ اعظم بننا چاہتا ہے۔ اب جو صورت حال سامنے آئی ہے اس میں ان جماعتوں کو لگتا ہے کہ ایک متحدہ محاذ بننا چاہیے۔

ان کے بقول اپوزیشن اتحاد کے لیے ایک چہرے کی ضرورت تھی اور اب ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن کو وہ چہرہ مل گیا ہے۔

اس سوال پر کہ کیا کانگریس ممتا بنرجی کو اپوزیشن کے وزیرِ اعظم کے امیدوار کے طور پر قبول کر لے گی؟ معصوم مرادآبادی نے کہا کہ اس کا انحصار اس پر ہے کہ پارلیمانی انتخابات میں کس جماعت کو کتنی نشستیں ملتی ہیں۔

ان کے بقول اگر ممتا بنرجی کو معقول تعداد میں نشستیں مل جاتی ہیں اور دوسری اپوزیشن جماعتیں ان کی حمایت کر دیتی ہیں تو ان کی حمایت کرنا کانگریس کی بھی مجبوری ہوگی۔

ان کے مطابق 2024 تو دور ہے ایسا لگتا ہے کہ اس سے قبل ہی اپوزیشن کا اتحاد بن جائے گا اور اگلے سال کے اوائل میں اترپردیش سمیت پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کے موقع پر یہ اتحاد اپنا اثر دکھائے گا۔

قبل ازیں رواں برس اپریل میں مغربی بنگال کی اسمبلی کے انتخابات سے قبل ممتا بنرجی نے حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں کے نام ایک مکتوب میں بی جے پی کے خلاف متحد ہو کر الیکشن لڑنے کی اپیل کی تھی۔ اس وقت اس مکتوب کا مثبت یا پرجوش جواب نہیں ملا تھا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ممتا بنرجی اپوزیشن اتحاد بنانے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن انہیں اس سلسلے میں مشکلات کا بھی اندازہ ہے۔

ٹی ایم سی کے ترجمان اور رکن پارلیمنٹ ڈیرک اوبرائن کا کہنا ہے کہ بی جے پی مخالف جماعتوں کو مشترکہ ایجنڈا بنانا ہوگا۔ بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کا متحد ہونا کافی نہیں ہے۔

ان کے مطابق سیاسی جماعتوں کے علاوہ تمام آئینی اداروں، میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔ حکومت سے سخت سوالات کرنا ہوں گے۔ صرف اپوزیشن جماعتوں سے حکومت مخالف محاذ تیار نہیں ہوگا بلکہ سول سوسائٹی کو بھی اس میں شامل ہونا ہوگا۔

کانگریس کے سینئر رہنماؤں کا خیال ہے کہ ممتا بنگال میں کامیابی کے بعد خود اعتمادی سے بھرپور ہیں اور وہ قومی سطح پر ایک بڑا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔

بھارت میں کرونا کی صورتِ حال بہتر، بلیک فنگس کا خطرہ برقرار
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:19 0:00

ایک اور تجزیہ کار آلوک موہن کہتے ہیں کہ حکومت نے جس طرح اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف انٹیلی جنس ایجنسیوں، محکمۂ انکم ٹیکس اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کو لگایا ہے اس کے پیشِ نظر یہ اتحاد آسان نہیں ہے۔

ان کے بقول جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں تو ایجنسیوں کی جانب سے اپوزیشن رہنماؤں کے گھروں اور دفتروں پر چھاپے شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ حکومت اپنے مخالفین کی آوازیں اس طرح بند کر دیتی ہے۔

اس حوالے میں حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ جن رہنماؤں کے خلاف بدعنوانی کی شکایت ہے ان کے خلاف ادارے اپنے طور پر کام کرتے ہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف چھاپوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہ ہی ادارے حکومت کی ہدایت پر کوئی کارروائی کرتے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG