رسائی کے لنکس

حسین حقانی کو پاکستان واپس لانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت


حسین حقانی کی فائل فوٹو
حسین حقانی کی فائل فوٹو

چیف جسٹس نے کہا کہ زیر التوا مقدمات پر ذرائع ابلاغ میں گفتگو اور تبصروں پر پابندی لگانے کا سوچ رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے میمو گیٹ کیس میں امریکہ میں پاکستانی کے سابق سفیر حسین حقانی کو واپس لانے کے لیے حکام کو ایک ماہ کی مہلت دے دی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہم گڑے مردے نہیں اکھاڑ رہے، قانون پرعمل درآمد یقینی بنا رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ذرائع ابلاغ میں زیرِ التوا مقدمات پر تبصروں پر پابندی لگانے کا بھی عندیہ دے دیا ہے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے میمو کمیشن سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری خارجہ عدالتی حکم پر پیش ہوئے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے بتایا کہ اب تک ہونے والی پیش رفت عدالت میں جمع کراچکے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج کل ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر تبصرے کیےجاتے ہیں کہ ہم گڑے مردے اکھاڑ رہے ہیں۔ ہم گڑے مردے نہیں اکھاڑ رہے بلکہ قانون پرعمل درآمد یقینی بنا رہے ہیں۔ انھیں بلا لیتے ہیں جنہیں کمنٹس دینے کا بہت شوق ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ زیر التوا مقدمات پر ذرائع ابلاغ میں گفتگو اور تبصروں پر پابندی لگانے کا سوچ رہے ہیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حسین حقانی کو کب واپس لایا جائے گا؟ جس پر سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ گزشتہ رات واشنگٹن سے مواد موصول ہوچکا ہے۔

حسین حقانی کے خلاف درج ایف آئی آر کا عکس
حسین حقانی کے خلاف درج ایف آئی آر کا عکس

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ معلوم تھا آپ کو بلاتے ہی مواد مل جائے گا۔ عدالت کیس ملتوی کرنے کے لیے نہیں بیٹھی ہوئی۔ تمام متعلقہ افراد کو سن کر فیصلہ جاری کریں گے۔ آپ کوشش کریں، حسین حقانی آتے ہیں یا نہیں یہ الگ بات ہے۔ تاخیر ہوئی تو سخت ایکشن ہوگا۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سربراہ بشیر میمن نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حسین حقانی کے خلاف کرپشن کا مقدمہ درج ہے۔ مقدمہ کمیشن رپورٹ کے بعد درج ہو جانا چاہیے تھا۔ حسین حقانی کے وارنٹ گرفتاری متعلقہ حکام کو ارسال کیے جاچکے ہیں۔ دائمی وارنٹ کے بعد خود امریکا جاؤں گا۔ امریکہ میں وکیل کی خدمات بھی حاصل کریں گے۔

ڈی جی ایف آئی اے کی استدعا پر عدالت نے حسین حقانی کو واپس لانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دے دی اور متنبہ کیا کہ مزید تاخیر کی صورت میں سخت ایکشن لیا جائے گا۔ ایک ماہ بعد مزید مہلت نہیں دی جائے گی۔

بعد ازاں کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی گئی۔

دوسری جانب ایف آئی اے میں حسین حقانی کے خلاف درج مقدمے کی تفصیلات بھی سامنے آگئی ہیں۔

وائس آف امریکہ کو ملنے والی ایف آئی آر کی کاپی کے متن کے مطابق حسین حقانی کے خلاف مقدمہ ایف آئی اے کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق حسین حقانی مئی 2008ء سے 2011ء تک امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہے جس کے دوران انہوں نے حکومتی فنڈز کا غلط استعمال کرکے قومی خزانے کو 20 لاکھ ڈالر سالانہ کا نقصان پہنچایا۔

متن کے مطابق حسین حقانی نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کرکے غیرقانونی فائدے اٹھائے۔ غبن میں ملوث دیگر افسران کا تعین بھی تحقیقات کے دوران کیا جائے گا۔

حسین حقانی کے خلاف مقدمے میں دفعات 3، 4، 409، 420 اور 109 لگائی گئی ہیں جب کہ مقدمے میں کرپشن کی روک تھام کے قانون کی دفعات بھی شامل ہیں۔

میموگیٹ اسکینڈل 2011ء میں اس وقت سامنے آیا تھا جب ایک پاکستانی نژاد امریکی کاروباری شخصیت منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انھیں اس وقت واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی نے ایک خفیہ میمو امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن کو پہنچانے کا کہا تھا۔

اس خط میں ایبٹ آباد میں القاعدہ کے روپوش رہنما اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن کے بعد مبینہ طور پر پاکستانی حکومت کے خلاف ممکنہ فوجی بغاوت روکنے کے لیے امریکہ سے مدد کی درخواست کی گئی تھی۔

حسین حقانی نے اس معاملے کے منظرِ عام پر آنے کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا جب کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بھی بنایا گیا تھا جس کی رپوٹ کے مطابق یہ خط حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG