رسائی کے لنکس

پاناما لیکس: عدالت عظمیٰ پیر سے دوبارہ سماعت شروع کرے گی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی سپریم کورٹ پیر سے پاناما کیس کے معاملے کی دوبارہ سماعت شروع کرنے جارہی ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف کے خاندان کے بیرون ملک اثاثوں سے متعلق چھان بین کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم یعنی ' جے آئی ٹی' نے گزشتہ پیر کو اپنی تحقیقاتی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش کی تھی جس میں وزیر اعظم نوازشریف اور ان کے بچوں کی بیرون ملک اثاثوں سے متعلق کئی سوالات اٹھائے گئے ۔

وزیر اعظم نواز شریف اس رپورٹ کے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں جب کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور اس کی حلیف جماعتیں پاناما پیپرز کو ایک سازش قرار دیتے ہوئے 'جے آئی ٹی'، کی رپورٹ میں عائد کیے گئے الزامات کو مسترد کرتی ہیں۔

تاہم حزب مخالف کی جماعتوں کا موقف ہے کہ اس رپورٹ میں عائد کیے جانے الزامات کے بعد وزیر اعظم کو فوری طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔

وزیر اعظم اس مطالبے کو مسترد کر چکے ہیں اور ان کی حلیف سیاسی جماعتیں ان کی حمایت میں کھل کر سامنے آ چکی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ جے آئی ٹی کی رپورٹ سے مطمئن نہیں ہیں۔

وفاقی وزیر برائے جہاز رانی اور نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو نے اتوار کو کراچی میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ حکمران جماعت کو 'جے آئی ٹی' کی رپورٹ کو چیلنج کرنا چاہیے جو ان کے بقول حقائق کے بر عکس ہے۔

"میں سمجھتا ہوں کہ عدالت کو بہت سنجیدگی سے لے کر چیزوں کو دیکھنا ہے ۔۔۔سیاسی جماعتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ ملک کو مشکل صورت حال سے نکالنے کے لیے ہمیں پارلیمان کے سامنے کھڑا ہونا پڑے گا۔"

دوسری طرف مبصرین کا کہنا ہے کہ اب جبکہ 'جے آئی ٹی' نے اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش کر دی ہے اس لیے پاناما لیکس کو سازش قرار دینا کافی نہیں ہو گا بلکہ اس کو رد کرنے کے لیے ایک مضبوط قانونی حکمت عملی اخیتار کرنا ضروری ہوگا۔

سیاسی امور کے تجزیہ کار احمد بلال محبوب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب شریف خاندان کو عدالت کے سامنے اپنا قانونی موقف پیش کرنا ہو گا۔

" آپ کو عدالت کے سامنے اب اپنا قانونی کیس پیش کرنا ہے اور 'جے آئی ٹی' میں جو کچھ کہا گیا قانونی طریقے سے ہی آپ اس کے خلاف اپنا موقف پیش کر سکتے ہیں ۔۔۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس طرح اپنا قانونی موقف پیش کرتے ہیں۔"

پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات کرنے والی چھ رکنی ٹیم میں فوج کے انٹیلی جنس اداروں 'ایم آئی' اور' آئی ایس آئی ' کے نمائندے بھی شامل تھے اور اتوار کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی 'آئی ایس پی آر' کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور سے جب 'جے آئی ٹی' پر ہونے والے تنقید کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ 'جے آئی ٹی' سپریم کورٹ نے بنائی تھی اور اس میں 'آئی ایس آئی' اور 'ایم آئی' کے دو ارکان شامل تھے جنہوں نے سپریم کورٹ کے ماتحت ان کے بقول محنت اور ایمانداری سے کام کیا ہے اور اب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے ہے اور اس سے فوج کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG