رسائی کے لنکس

سپریم کورٹ: حدیبیہ پیپر ملز سے متعلق تمام ریکارڈ طلب


فائل فوٹو
فائل فوٹو

عدالت نے نیب کی جانب سے دستاویزات پیش کرنے کے لیے طلب کی جانے والی چار ہفتوں کی مہلت کی استدعا مسترد کردی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ آپ کے پاس سب کچھ تو موجود ہے،مزید وقت کس لیے دیں؟

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) سے تمام ریکارڈ، احتساب عدالت کی کورٹ ڈائری، 2008ء میں مقدمہ بحال کرنے کی درخواست، اصل شکایات، چیئرمین نیب کی تقرری کا سابقہ اور موجودہ طریقۂ کار اور ملزمان کے عوامی عہدوں پر رہنے سے متعلق تفصیلات طلب کرلی ہیں۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل تین رکنی بینچ نے حدیبیہ پیرملز کیس کی بحالی سے متعلق درخواست کی سماعت منگل کو شروع کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ حدیبیہ ریفرنس کی دستاویزات کدھر ہیں؟ جس پر خصوصی پراسیکیوٹر نیب عمران الحق نے بتایا کہ ہائی کورٹ نے تیکنیکی بنیادوں پر ریفرنس خارج کیا تھا تاہم عدالت کہے تو ریفرنس کی دستاویزات فائل کردیتے ہیں۔

جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ حدیبیہ پیپر ملز سے متعلق ریفرنس کی بات جے آئی ٹی کے کس والیم میں کی گئی؟ نیب پراسیکیوٹر کے آگاہ کرنے پر عدالت نے رجسٹرار آفس سے والیم 8 اور والیم 8 اے منگوالیا۔

جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ حدیبیہ پیپرز مل کے اصل ریفرنس کی دستاویزات دیکھنا چاہتے ہیں۔

نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کے لیے اکنامک ریفارمز ایکٹ کا سہارا لیا گیا اور اس مقصد کے لیے جعلی فارن کرنسی اکاؤنٹ کھولے گئے جب کہ ملزمان کے بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے کارروائی روک دی گئی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ کسی کو جبری طور پر باہر بھیجنا یا کسی کاعدالت سے فرار ہونا مختلف چیزیں ہیں۔ کس کے حکم پر نواز شریف کو باہر بھیجا گیا تھا؟

وکیل نیب نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف کو اس وقت کے چیف ایگزیکٹو پرویزمشرف کے حکم پر باہر بھیجا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ فریقین بیرونِ ملک کب گئے جس پر وکیل نیب کا کہنا تھا کہ دسمبر 2000ء میں جلا وطن ہوئے تھے اور نومبر 2007ء میں جلا وطنی ختم ہونے پرواپس آئے جب کہ ملزمان 2014ء میں مقدمے پر اثر انداز ہوئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ نیب کو ریفرنس پرکتنے عرصے میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے؟ نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ نیب کو ایک ماہ کے اندر ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ کیا کسی کے خلاف ریفرنس بنا کر اس پر ہمیشہ کے لیے تلوار لٹکائے رکھیں گے؟ ریفرنس کو طویل عرصے تک زیر التوا نہیں رکھا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں آپ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے اور ہم اپیل پر ابھی حکم جاری کر دیں گے؟

جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ حدیبیہ ریفرنس پر دلائل دیں جس پر نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ حدیبیہ ریفرنس پر ان کی مکمل تیاری نہیں ہے تاہم حدیبیہ پیپر ملز 1999ء تک خسارے میں چل رہی تھی۔ اس وقت کمپنی کے ڈائریکٹرز کے پاس بہت بڑی رقم تھی جس کی منی لانڈرنگ کی گئی۔

سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں نیب سے تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے احتساب عدالت کی کورٹ ڈائری اور اس وقت کے چیئرمین نیب کی تقرری کا طریقۂ کار بھی طلب کرلیا۔

عدالت نے نیب کی جانب سے دستاویزات پیش کرنے کے لیے طلب کی جانے والی چار ہفتوں کی مہلت کی استدعا مسترد کردی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ آپ کے پاس سب کچھ تو موجود ہے،مزید وقت کس لیے دیں؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیس میں سنجیدگی دکھائیں، سپریم کورٹ نے خاص بینچ بنایا ہے، کیا نیب ابھی بھی دباؤ میں ہے؟

وکیل نیب نے جواب دیا کہ بدقسمتی سے ایسا ہی ہے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 11دسمبر تک ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کیس دوبارہ کھولنے کا حکم پانامہ لیکس سے متعلق مقدمے کے فیصلے میں دیا تھا جس پر نیب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ یہ کیس دوبارہ کھولنے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرے گا۔

یہ کیس دوبارہ کھولنے کے لیے اپیل کی سماعت کے لیے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ بنایا گیا تھا لیکن ان کی جانب سے کیس سننے سے معذرت پر یہ بینچ ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار نے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں نیا تین رکنی بینچ تشکیل دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG