رسائی کے لنکس

سوزی ۔۔۔ تُم یاد رہو گی


ہر اہم تقریب اور موقع پر شائقین کا دل بہلانے والی لاہور چڑیا گھر کی سوزی، جو اب دنیا میں نہیں رہی۔
ہر اہم تقریب اور موقع پر شائقین کا دل بہلانے والی لاہور چڑیا گھر کی سوزی، جو اب دنیا میں نہیں رہی۔

جو سوزی اپنی زندگی میں چڑیا گھر آنے والوں کو محظوظ کرتی رہی اور خبروں کے ذریعے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا پیٹ بھرتی رہی۔ وہ سوزی جاتے جاتے بھی چینلز کی ہیڈ لائن اور اخبارات کی شہ سُرخی بن گئی ۔

ثمن خان

آج صبح آنکھ فون کی گھنٹی سے کھلی ۔ موبائل اسکرین پر لاہور چڑیا گھر کے ذرائع کا نمبر تھا۔ معلوم ہوا کہ چڑیا گھر کی واحد مادہ ہتھنی سوزی چل بسی ہے۔ تفصیل پوچھنے پر پتہ چلا کہ سوزی چار روز سے چل نہیں پا رہی تھی۔ ٹیسٹ کرانے پر یورک ایسڈ کا مسئلہ سامنے آیا تھا اور آج صبح انتظامیہ نے اُسے مُردہ پایا۔

36 سالہ کی ہتھنی کو 1985میں بیلجئیم سے لاہور چڑیا گھر لایا گیا تھا۔ رپورٹر ہونے کے ناطے خبر تو تسلی سے جان لی لیکن فون بند کرنے کے بعد ایک بھاری پن کا احساس ہوا اوردل و دماغ پرکچھ پُرانی یادوں نے دھاوا بول دیا۔

اپریل 2008 کی وہ صبح یاد آئی۔ جب مُجھے ایک نجی ٹی وی چینل کے ساتھ رپورٹنگ کا آغاز کئے صرف چند ماہ ہی گزرے تھے۔ اُس روز آفس آتے ہی معمول کے مطابق اسائنمنٹ شیٹ دیکھی تو اپنے نام کے آگے لکھی ڈیوٹی دیکھ ایک عجیب سا تجسس اُبھرا۔ ڈیوٹی تھی لاہور چڑیا گھر کی ہتھنی سوزی کی سالگرہ تقریب کور کرنے کی اور تجسس تھا، ایک جانور کو کیک کاٹتے ہوئے دیکھنے کا۔ ایبٹ روڈ سے مال روڈ تک کاددس منٹ کا سفر جیسے تیسے کر کے طے کیا اور بالاخر سوزی کی سالگرہ تقریب میں پہنچے۔

توقع کے مطابق سوزی نے برتھ ڈے کیپ پہنی تھی نہ کوئی زرق برق لباس زیب تن کیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اُس کی ادائیں ہی نرالی تھیں۔ برتھ ڈے گرل اپنے خاص دن خود ہی باجا بجانے میں مصروف تھی۔

سوزی کے سامنے میز پر ہاتھی نما کیک رکھا گیا تھا۔ اُمیدوں پر پانی تو اُس وقت پھرا جب کیک سوزی کی جگہ چڑیا گھر انتطامیہ نے کاٹا بھی خود اور کھایا بھی خود۔ سوزی تو بس دیگر شایقین کی طرح یہ سب نظارہ کر رہی تھی۔

پوچھنے پر معلوم ہوا کہ بے زبان جانور کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے اُسے چُھری تھمائی گئی نہ ہی اُسکی اپنی خوراک سے ہٹ کر کوئی شے کھلائی گئی۔

البتہ اُس دن خاص بات یہ تھی کہ ہم شائقین کی طرح ہتھنی کے احاطے سےباہر نہیں بلکہ اندر موجود رہے۔ اور پی ٹی سی (رپورٹر کی آن کیمرہ حاضری) کا آئیڈیا کیمرہ مین نے کُچھ یوں دیا کہ کیوں نہ ہم ہتھنی کو بٹھائیں اور آپ اُس کے پاوں پر بیٹھ کر رپورٹ کی اختتامی لائنز ادا کریں۔

آئیڈیا بھلا معلوم ہوا اور خیال آیا کہ صحافتی تربیت کے دوران انگریز ٹرینرز بھی کُچھ ایسا ہی سکھا کر گئے تھے کہ جہاں جائیں اُس رنگ میں رنگ جائیں۔ تو پھر کیا تھا، بیٹھ گئی ہتھنی کے پاوں پر اور کر ڈالی پی ٹی سی۔

اُس دن بلی سے ڈرنے والی لڑکی کی بھاری بھرکم سوزی سے پہلی قریبی ملاقات ہوئی اور پھر کیا ملاقاتوں کا یہ سلسلہ ایسا دراز ہوا کہ وائلڈ لائف کی بیٹ مل گئی اور خبر کے حصول کے سلسلے میں ایک مہینے میں چڑیا گھر کے دو یا تین چکر تو لازم تھے۔

کبھی ٹی وی رپورٹ کے ذریعے سوزی کی تین دہائیوں کی تنہائی دکھائی تو کبھی دو دہائیوں سے اُس کی خدمت پر مامور مہاوت کے ریٹائر ہو جانے کا غم۔ ٹی وی کی مانگ کے مطابق موسم گرما میں اُسکا کھانا، پینا اور نہلانا دکھایا تو کھیلوں کے موسم میں اُس سے فال بھی نکلوائے۔

لاہور کی تفریح گاہوں کی جان چڑیا گھر ہے اور اُس چڑیا گھر کی جان سوزی۔ عید یا کرسمس کا تہوار ہو، 14اگست یا کوئی بھی چھٹی کا روز لاہور کے میڈیا نے تو دھڑلے سے چڑیا گھر پُہنچنا ہوتا ہے، کیونکہ ان دنوں میں شائقین کی بڑی تعداد چڑیا گھر کا رُخ کرتی ہے اور لوگوں کا ہجوم سوزی کے گرد ہی جمع رہتا ہے۔ بچے ہوں یا بڑے سب کی کوشش ہوتی کہ سوزی اُن کے عین سامنے آ کھڑی ہو، تبھی تو پیسے تھام کر ہاتھ آگے بڑھاتے اور جب وہ اپنی سونڈ سے اُنکے ہاتھ سے پیسے لیتی تو شائقین کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہتی۔ اور یہی وہ تماشہ ہوتا جسے میڈیا بھی کیمرے کی آنکھ میں شوق سے محفوط کرتا۔

جو سوزی اپنی زندگی میں چڑیا گھر آنے والوں کو محظوظ کرتی رہی اور خبروں کے ذریعے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا پیٹ بھرتی رہی۔ وہ سوزی جاتے جاتے بھی چینلز کی ہیڈ لائن اور اخبارات کی شہ سُرخی بن گئی ۔

محکمہ جنگلی حیات کے افسران اور شائقین سمیت میڈیا بھی اُسے رُخصت کرنے پُہنچا ہے۔ تحقیق کی غرض سے سوزی کی کھال پنجاب یونیورسٹی اور ہڈیاں ویٹرنری یونیورسٹی کو دے دی جائینگی ، جبکہ باقی ماندہ حصہ اُسی احاطے میں دفن کر دیا جائیگا جہاں کبھی وہ رونق میلہ لگائے رکھتی تھی۔

کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ سوزی چڑیا گھر کو ویران کر گئی، لیکن اگر ہم رپورٹروں سے پوچھیں تو یہ بے زبان تو ہماری ٹی وی اسکرین بھی بے رنگ کر گئی۔ اب جب نیوز روم سے ڈیمانڈ آئے گی کہ پاکستان کا فلاں ٹیم کے ساتھ میچ ہے، ذرا کسی جانور سے فال تو نکلوا لاوو، یا پھر پاکستان کی جیت کا جشن منانا ہے، کسی جانور سے باجا ہی بجوا دو تو کونسا جانور ہوگا جو ہمارے ساتھ تعاون کرے گا، ہماری بات مانے گا کیونکہ جو ساتھی ہمیں اس مُشکل سے نکالتا تھا، وہ تو دُنیا سے جا چُکا ہے۔

XS
SM
MD
LG