شام میں نازک جنگ بندی کی مجموعی کامیابی کا دارومدار تنازع میں ملوث اہم فریق کی جانب سے آئندہ چند دِنوں کے اندر اٹھائے جانے والے اقدامات پر ہو گا۔ یہ بات اُن تجزیہ کاروں نے کہی ہے جو بحران پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔
حکومت شام اور باغیوں نے ہفتے سے ابتدائی طور پر دو ہفتوں کے لیے مخاصمانہ کارروائیاں بند کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا، جس منصوبے کی بنیاد شام کے بارے میں 17 ملکی بین الاقوامی حمایتی گروپ نے رکھی تھی۔
پیر کے روز، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے تسلیم کیا کہ ’’کچھ واقعات‘‘ ہوئے ہیں، لیکن مجموعی طور پر لڑائی بند ہے۔
اسٹیون ہیڈیمن کے مطابق، شامی اپوزیشن اور حکومت شام، جسے روس اور ایران کی پشت پناہی حاصل ہے، کی جانب سے جنگ بندی تب تک جاری رہے گی جب تک حکومت اور حزب مخالف امن مذاکرات کی بحالی کی کوششوں کو تیز نہیں کریں گے۔ ہیڈیمن ’بروکنگز انسٹی ٹیوشن‘ میں مشرق وسطیٰ پالیسی کے تجزیہ کار ہیں۔
ہیڈیمن کے الفاظ میں، ’’یہ نہایت اہم معاملہ ہے جس کی جانب ہمیں آئندہ ہفتوں کے دوران قریبی دھیان دینا ہو گا، جن کا تعلق اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی، اسٹفین ڈی مستورا کی کوششوں سے ہے، تاکہ سیاسی عمل کو دوبارہ پٹری پر ڈالا جاسکے‘‘۔
بقول اُن کے، ’’اگر یہ اگلے چند روز تک تیزی سے جاری نہیں رہتا، تو پھر اس کا اثر جنگ بندی ختم ہونے کی صورت میں سامنے آسکتا ہے‘‘۔
ڈی مستورا نے چار مارچ کی امکانی تاریخ طے کی ہے جب تک عبوری دور کے لیے بات چیت بحال ہوسکتی ہے۔
جنگ بندی حکومت کے لیے فائدیمند
حکومت اور اپوزیشن کے مابین بات چیت کا قریب ترین ابتدائی دور فروری کے اوائل میں ناکام ہوا، جس کا کسی حد تک سبب بم حملوں میں تیزی آنا تھا، اور روس کی حامی حکومت شام کے بارے میں حزب مخالف کو شکایتیں تھیں۔ بقول حزب مخالف، یہ کارروائیاں اُن گروہوں پر کی جارہی تھی جو بات چیت کا حصہ تھے۔
ہیڈیمن نے کہا کہ تنازع میں ملوث فریق یہ وقت اس سوچ میں گم تھے کہ اس وقت کیا ہوگا اگر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تو تنازع کے کلیدی فریق یہ سمجھیں گے کہ بغیر کسی سزا کے وہ جنگ بندی کے سمجھوتے کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں۔
تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ جنگ بندی، جو کہ ابھی جاری ہے، اس کا فائدہ اپوزیشن سے زیادہ شامی حکومت اور اُس کے حامیوں کو ہو گا۔