رسائی کے لنکس

قازقستان: شام سے متعلق سہ فریقی اجلاس بے نتیجہ ختم


قازقستان میں شام سے متعلق اجلاس میں شام کی حزب مخالف کے ارکان ۔ 5 جولائی 2017
قازقستان میں شام سے متعلق اجلاس میں شام کی حزب مخالف کے ارکان ۔ 5 جولائی 2017

سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ روس اور ایران نے، جو صدر بشارالاسد کی حمایت کرتے ہیں جنگ سے تباہ حال ملک شام میں چار غیر فوجی علاقوں کے قیام کے لیے، ترکی کے ساتھ کام کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے ۔

شام میں فوجی مداخلت سے پاک محفوظ علاقے قائم کرنے سے متعلق قازقستان میں بدھ کے روز ہونے والے اجلاس میں روس، ترکی اور ایران کے مابین اتفاق نہیں ہو سکا۔

سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ روس اور ایران نے، جو صدر بشارالاسد کی حمایت کرتے ہیں جنگ سے تباہ حال ملک شام میں چار غیر فوجی علاقوں کے قیام کے لیے، ترکی کے ساتھ کام کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔

ترکی شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف لڑنے والے باغیوں کا حامی ہے۔

تینوں ملکوں کو توقع ہے کہ وہ اگست کے آخر تک جب وہ آستانہ میں دوبارہ اجلاس کریں گے، کسی متفقہ فیصلے پر پہنچ جائیں گے۔

بدھ کے روز ہونے والے اجلاس کی ناکامی ماسکو کے لیے ایک دھچکہ ہے جو امن مذاکرات کا منتظم ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ وہ 6 سالہ خانہ جنگی سے متاثرہ ملک کے مسئلے کے حل کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں میں اہم کردار ادا کرے۔

قازقستان میں اس سے پہلے ہونے والی امن کانفرنس جو جنیوا میں اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے امن مذاكرات کے متوازی ایک کوشش تھی، نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔

مئی میں جس فائر بندی کا اعلان کیا گیا تھا اور جو محفوظ علاقے قائم کیے تھے، ان کی متعدد بار خلاف ورزیاں ہو چکی ہیں۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق شام کی خانہ جنگی میں اب تک تین لاکھ 20 ہزار سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں کو اپنی جانیں بچانے کے لیے دوسرے علاقوں اور بیرونی ملکوں میں پناہ لینی پڑی ہے۔

عالمی ادارے نے ایذا رسانی اور تشدد کے نتیجے میں ہلاکتوں کے واقعات اکھٹے کرنے کے لیے ایک کمشن آف انکوائری قائم کر دیا ہے۔

شام میں فوجی مداخلت سے پاک محفوظ علاقے قائم کرنے سے متعلق قازقستان میں بدھ کے روز ہونے والے سہ فریقی اجلاس میں روس ، ترکی اور ایران کے درمیان اتفاق نہیں ہو سکا۔

سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ روس اور ایران نے، جو صدر بشارالاسد کی حمایت کرتے ہیں جنگ سے تباہ حال ملک شام میں چار غیر فوجی علاقوں کے قیام کے لیے، ترکی کے ساتھ کام کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔

ترکی شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف لڑنے والے باغیوں کا حامی ہے۔

تینوں ملکوں کو توقع ہے کہ وہ اگست کے آخر تک جب وہ آستانہ میں دوبارہ اجلاس کریں گے، کسی متفقہ فیصلے پر پہنچ جائیں گے۔

بدھ کے روز ہونے والے اجلاس کی ناکامی ماسکو کے لیے ایک دھچکہ ہے جو امن مذاکرات کا منتظم ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ وہ 6 سالہ خانہ جنگی سے متاثرہ ملک کے مسئلے کے حل کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں میں اہم کردار ادا کرے۔

قازقستان میں اس سے پہلے ہونے والی امن کانفرنس جو جنیوا میں اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے امن مذاكرات کے متوازی ایک کوشش تھی، نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔

مئی میں جس فائر بندی کا اعلان کیا گیا تھا اور جو محفوظ علاقے قائم کیے تھے، ان کی متعدد بار خلاف ورزیاں ہو چکی ہیں۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق شام کی خانہ جنگی میں اب تک تین لاکھ 20 ہزار سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں کو اپنی جانیں بچانے کے لیے دوسرے علاقوں اور بیرونی ملکوں میں پناہ لینی پڑی ہے۔

عالمی ادارے نے ایذا رسانی اور تشدد کے نتیجے میں ہلاکتوں کے واقعات اکھٹے کرنے کے لیے ایک کمشن آف انکوائری قائم کر دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG