رسائی کے لنکس

شام خانہ جنگی کا فوری حل بظاہر ممکن نہیں: ماہرین


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

ماہرین کی نظر میں اگر باغی صدر بشار الاسد کو اقتدار سے محروم کر دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بھی تشدد جاری رہے گا بلکہ ممکن ہے اس میں اور زیادہ شدت آ جائے۔

شام میں خانہ جنگی جاری ہے۔ سفارتی کوششوں کی کامیابی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے اور اقوامِ متحدہ کے مطابق اب تک 60,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ماہرین کی نظر میں اس تنازعے کا کوئی فوری حل ممکن نہیں ہے اور ان کا خیال ہے کہ اگر باغی صدر بشار الاسد کو اقتدار سے محروم کر دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بھی تشدد جاری رہے گا بلکہ ممکن ہے اس میں اور زیادہ شدت آ جائے۔

شام میں جنگ اپنی پوری ہولناکیوں کے ساتھ جاری ہے، نہ تو باغیوں کو اور نہ سرکاری فورسز کو فیصلہ کن فتح حاصل ہو سکی ہے۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ جنگ کا اگلا مرحلہ اور بھی زیادہ ہولناک ہو سکتا ہے۔

لندن اسکول آف اکنامکس میں مشرقِ وسطیٰ کے امور کی ماہر عالیہ براہیمی کہتی ہیں ‘‘بلا شبہ، شام میں حالات کے بد ترین شکل اختیار کرنے کا تصور بالکل ممکن ہے۔ جو بات ممکن نظر آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہ حکومت ختم ہو گئی تو انتقام لینے کے لیے اور فرقہ وارانہ تشدد میں ،بہت بڑی تعداد میں لوگ ہلاک کر دیے جائیں گے۔ اور شاید فتح یاب ہونے والی حزبِ اختلاف کے اندر اقتدار کی کشمکش شروع ہو جائے گی، اور پھر علاقے کے ملک اپنے اپنے دھڑوں کی حمایت کے لیے میدان میں نکل آئیں گے۔’’

یہ بڑا مایوس کن منظرنامہ ہے لیکن اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیئے۔ شام سنّی اور شیعہ مسلمانوں میں مختلف قبیلوں اور فرقوں میں، اسلامی عسکریت پسندوں میں اور لبرل خیالات کے لوگوں میں بٹا ہوا ہے۔

عالیہ براہیمی کہتی ہیں کہ ‘‘شام میں جو بحران ہے ممکن ہے اس کے طے ہونے میں برسوں لگ جائیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس بحران کے پس منظر میں اقتدار کے تمام فرقہ وارانہ اور علاقائی جھگڑے موجود ہیں۔’’

براہیمی کا اشارہ ایران کی طرف ہے جو شیعہ ملک ہے۔ شام کا علوی فرقہ شیعوں کی ایک شاخ ہے اور اس کے لیڈروں کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب اور خلیج کی دوسری عرب ریاستیں ہیں جو شام میں سنیوں کو برسرِ اقتدار اور ایران کو کمزور ہوتے دیکھنا چاہتی ہیں۔

جہاں تک مغربی طاقتوں کا تعلق ہے،وہ لبرل اور جمہوری شام کے حق میں ہیں جب کہ روس نے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ شام میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے گا۔

لیکن کونسل فار عرب برٹش انڈسٹنڈنگ میں کرس ڈویل ماہرین کہتے ہیں کہ اگر مختلف ملکی اور بین الاقوامی عناصر کو یہ اطمینان دلا دیا جائے کہ ان کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا تو پھر ضروری نہیں کہ شام میں خانہ جنگی طویل عرصے تک جاری رہے۔

‘‘اگر فوری طور پر شام میں حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تو ملک کے اندر اقتدار کی زبردست کشمکش شروع ہو جائے گی۔ تاہم اگر کوئی سیاسی حل نکل آئے اور تبدیلی کا واضح طریقۂ کار متعین ہو جائے تب اس بات کا کچھ امکان ہے کہ شام اس ہولناک بحران سے نکل سکتا ہے اور اچھے دنوں کی توقع کر سکتا ہے۔’’

لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے زیادہ متنازعہ مسئلے پر کوئی سمجھوتہ ہو یعنی یہ کہ کیا صدر اسد فوری طور پر استعفیٰ دیں گے یا کم از کم ایک عبوری مدت کے لیے اپنا عہدہ برقرار رکھیں گے۔

دونوں میں سے کوئی بھی فریق اس معاملے میں رعایت دینے کو تیار نہیں ہے۔ لندن اسکول آف اکنامکس کی عالیہ براہیمی کہتی ہیں کہ ‘‘اس معاملے کو طے کرنا ممکن ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ اس وقت کوئی اس کے لیے تیار نہیں ہے۔’’

اور اس کا مطلب یہ ہے کہ شامیوں کو ابھی برسوں نہیں تو مہینوں تک لڑائی کا سامنا کرنا پڑے گا چاہے مسٹر اسد بر سرِ اقتدار رہیں یا نہ رہِیں۔
XS
SM
MD
LG