رسائی کے لنکس

باغیوں سے جھڑپوں کے بعد شامی فوج ادلب میں داخل


شام کی فوج اور باغیوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد شامی فوج باغیوں کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقے ادلب میں داخل ہو گئی ہے۔

دو ماہ سے جاری اس لڑائی کے دوران لگ بھگ پانچ لاکھ افراد بے گھر ہوئے جب کہ اس دوران ترکی اور شامی افواج کے درمیان جھڑپیں بھی ہوتی رہیں۔

ترکی کی سرحد سے ملحقہ علاقے سراقیب میں باغیوں اور شامی افواج کے درمیان لڑائی جاری ہے۔ باغیوں نے یہاں سے حکومتی افواج کو پیچھے دھکیل دیا تھا۔

ترکی نے اس علاقے میں مزید فوج بھیجتے ہوئے شامی فوج کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس علاقے سے نکل جائے۔

شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ثانا' کے مطابق شامی فوجیں جمعرات کی رات ادلب میں داخل ہوئیں اور اب علاقے میں کامبنگ آپریشن اور مبینہ طور پر دھماکہ خیز مواد کی تلاش کا کام جاری ہے۔

اس سے قبل شامی فوج نے ادلب میں موجود ترک افواج کی سراقیب کی جانب جانے والے راستوں پر قائم چیک پوسٹوں پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔

شامی فوج کی پیش قدمی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پیر کو شامی اور ترک فوجیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ کے نتیجے میں سات ترک فوجی جب کہ 13 شامی فوج ہلاک ہو گئے تھے۔

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے پیر کو نیوز کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ ترک فوج نے شامی فوج کے 46 اہل کاروں کو نشانہ بنایا ہے جن میں 30 سے 35 شامی فوجی ہلاک ہو گئے ہیں۔

روسی وزارتِ داخلہ نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ شمالی شام میں روسی فوجیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ تاہم ماسکو نے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری دہشت گردوں پر عائد کی تھی۔

خیال رہے کہ روس شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کا حمایتی ہے جب کہ ترکی، شامی حکومت کے خلاف سرگرم باغیوں سے تعاون کرتا آیا ہے۔

شام کی افواج دسمبر سے ہی ادلب اور اس سے ملحقہ 'الیپو' میں باغیوں کے خلاف سرگرم ہے۔ یہاں ترک افواج نے بھی اپنی چیک پوسٹس قائم کر رکھی تھیں تاکہ سیز فائر معاہدے پر عمل درآمد کرا سکیں۔

اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے علاقے میں فوری جنگ بندی پر زور دیا ہے۔

ادلب کی صورتِ حال کا پس منظر کیا ہے؟

روس اور ترکی نے 2017 میں ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت ادلب میں فوجی کارروائی روکنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

فریقین اس علاقے میں مشترکہ گشت کرنے پر رضا مند ہو گئے تھے تاکہ کوئی جھڑپ نہ ہو۔ لیکن اس معاہدے کی خلاف ورزیوں کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔

ترکی نے روس پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا تھا۔ لیکن روس نے اسے مسترد کر دیا تھا۔

شام میں جاری جنگ کے باعث ترکی نے لگ بھگ 35 لاکھ شامی مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے۔ ترکی اپنی سرحد سے ملحق شمالی شام میں 'سیف زون' قائم کرنا چاہتا ہے۔ جہاں وہ اُن مہاجرین کی آباد کاری کے علاوہ اپنی داخلی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گرد گروہوں کے خلاف بھی کارروائی کر رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG