رسائی کے لنکس

شام کے محصور شہروں سے لوگوں کا اںخلا شروع


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اگر انخلا کا یہ عمل مکمل ہو جاتا ہے تو یہ محصور علاقوں سے تقریباً 30 ہزار افراد کو نکالنے کا پہلا مرحلہ ہو گا۔

شام کی حکومت اور حزب مخالف کی فورسز نے جمعہ کو آبادی کے مربوط تبادلے کے تحت چھ سالہ خانہ جنگی کے دوران کئی سالوں سے چار محصور شہروں میں موجود تقربیاً 10 ہزار افراد کے انخلا کا عمل شروع کیا ہے۔

عبدالکریم بغدادی جنہوں نے یہ سمجھوتہ طے کرنے میں مدد کی نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ تقریباً پانچ ہزار افراد کو 75 بسوں کے ذریعے شمالی شام میں حکومت کے زیر کنٹرول دو شہروں سے قریبی شہر حلب منتقل کیا گیا۔

كفريا اور فؤا شہر جہاں آبادی کی اکثریت شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے، شامی حکومت کے حامی رہے ہیں جب کہ اس کے ںواح میں واقع ادلب کے علاقے پر شدت پسند گروپ داعش کے باغیوں کا کنٹرول تھا۔

برطانیہ میں قائم تنظیم ’سیئرین آبزویٹری فار ہیومین رائٹس‘ اور شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق دارالحکومت شام کے قریب واقع حزب مخالف کے زیر کنڑول علاقوں سے 2,350 افراد کو لے کر 60 بسوں کا قافلہ، جس میں جنگجو، سرگرم کارکن اور دیگر خاندان شامل تھے، ادلب کے طرف روانہ ہوا۔

محمد درویش جو محصور شہر میں طبی امداد فراہم کرتے ہیں کا کہنا ہے کہ"ہم چلے گئے ہیں۔ ہم شہروں کے مضافات میں ہیں۔"

اگر انخلا کا یہ عمل مکمل ہو جاتا ہے تو یہ محصور علاقوں سے تقریباً 30 ہزار افراد کو نکالنے کا پہلا مرحلہ ہو گا۔

ایران اور قطر کے تعاون سے حکومت اور باغیوں کے مابین طے پانے والے سمجھوتے کے تحت مضايا کے ںواح میں واقع باغیوں کے زیر کنٹرول قصبہ زبدانی سے بھی لوگوں کو دیگر علاقوں میں منتقل کیا جائے گا۔

بعض افراد اس عمل پر تنقید کرتے ہوئے اس جبری نقل مکانی قرار دے رہے ہیں۔

تاہم مضايا اور زبدانی کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ان دو شہروں میں حالات برداشت سے باہر ہو گئے تھے۔ یہ شہر 2015 سے حکومت نواز فورسز کے محاصرے میں تھے جس کی وجہ سے لوگوں کو خوراک اور ضرورت زندگی کی دیگر اشیا کی شدید کمی کا سامنا تھا۔

XS
SM
MD
LG