تائیوان کی حکومت نے انکشاف کیا ہے کہ ملک میں شرحِ پیدائش فی خاتون 9ء0فی صد کی حد تک گر گئی ہے جو دنیا میں اب تک رپورٹ کی گئی سب سے کم ترین سطح ہے۔
اس سے قبل گزشتہ برس تائیوان میں یہ شرح 03ء1 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی۔ رواں برس ریکارڈ کی گئی شرح کے بعد تائیوان دنیا میں سب سے کم شرحِ پیدائش کے حامل چینی علاقے مکاؤ سے بھی نیچے چلا گیا ہے جہاں یہ شرح 92ء0 فی صد ہے۔ دنیا کی تیسری کم ترین شرحِ پیدائش ہانگ کانگ کی 07ء1 فی صد ہے۔
سنگاپور، جاپان اور جنوبی کوریا کا شمار بھی دنیا میں کم ترین شرحِ پیدائش کے حامل ممالک کی فہرست میں ہوتا ہے۔
تائیوان کے حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں گرتی ہوئی شرحِ پیدائش کی بنیادی وجہ معاشی مشکلات اور تعلیمی اخراجات میں اضافہ ہے۔ حکام کے بقول کئی خاندانوں نے گزشتہ برس اس لیے بھی بچوں کی پیدائش سے گریز کیا کیونکہ 2010 کو 'شیر کا سال" قرار دیا گیا تھا جسے بچوں کی پیدائش کے لیے ایک ناخوشگوار وقت قرار دیا جاتا ہے۔
حکام اس پریشانی کا شکار ہیں کہ اگر شرحِ پیدائش میں کمی کا یہ رجحان برقرار رہا تو تائیوان اپنی صنعتوں کو برقرار رکھنے کے لیے درکار افرادی قوت سے محروم ہوجائے گا۔
تائیوان کی حکومت جوڑوں میں بچے پیدا کرنے کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے انہیں محصولات میں چھوٹ دینے اور کئی رعایتیں فراہم کرنے پر بھی غور کر رہی ہے۔