تاجکستان میں سکیورٹی فورسز اُن اسلامی عسکریت پسندوں کی تلاش میں ہے جِن پر الزام ہے کہ اُنھوں نے ایک فوجی کاروان پر گھات لگا کر حملہ کیا جِس کے نتیجے میں کم از کم 23فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔
یہ حملہ اتوار کو اُس و قت ہوا جب فوجی گاڑیاں وادیٴ رَشت کے علاقے کی طرف جارہی تھیں۔ یہ علاقہ افغان سرحد سے 75کلومیٹر دور ہے۔
فوجی عہدے داروں نے مشتبہ لوگوں کی تلاش کے لیے ہیلی کاپٹر گن شپس دارالحکومت دوشنبے کے مشرق میں واقع 250کلومیٹر کے دور اُفتادہ پہاڑی علاقے کی طرف بھیج دیے ہیں۔ خیال کیاجاتاہے کہ یہ خطہ اسلام پرست عسکریت پسندوں کا محفوظ ٹھکانہ ہے۔
تاجکستان کی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ گھات لگا کر ہلاک کرنے کے واقعے کی قیادت شدت پسند اسلامی کمانڈر ملا عبدللہ اور حکومت مخالف لیڈر علاؤالدین دولتوف کررہے تھے۔ 1992ء اور 1997ء کے دوران ہونےوالی خانہ جنگی میں دونوں، تاجک حکومت سے لڑ چکے ہیں۔ لڑائی کے بعد، عبداللہ افغانستان چلے گئے تھے لیکن باور کیا جاتا ہے کہ گذشتہ برس وہ تاجکستان لوٹ چکے ہیں۔
وزارتِ دفاع کے ایک ترجمان فریدون مخمدالیف نے اِس واقعے کو دہشت گرد کارروائی قرار دیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ حملہ آوروں کا تعلق تاجکستان، افغانستان، پاکستان اور چیچنیا سے ہے۔
تاجک عہدے داروں کا کہنا ہے کہ طالبان اور القاعدہ جنگجو نیٹو کی قیادت میں جاری کارروائیوں سے بچ نکل کر شمالی افغانستان سے تاجکستان داخل ہونے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
تاجک عہدے داروں نے بتایا ہے کہ اِس سے قبل، اِسی ماہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ گھنٹے بھر تک جاری رہنے والی فائرنگ کے دوران طالبان سے وابستہ کم از کم 20شدت پسندوں کو ہلاک کردیا تھا۔
تاجکستان، مسلم اکثریتی ملک اورایک غریب ترین ریاست ہے جِس نے سوویت یونین کے خاتمے پر جنم لیا۔