رسائی کے لنکس

تاجکستان : ملک سے انتہا پسندی کو دور رکھنے کی کوششیں


دشنبہ کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائگی
دشنبہ کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائگی

مسجد کے ایک امام، عبد اللہ تاجکستان کے صدر کے اِس مؤقف کی حمایت کرتے ہیں کہ ’اسلام کی تعلیم کے لیے والدین کو معاشرے کا مرکزی استاد ہونا چاہیئے‘

ایسے وقت میں جب افغانستان کے اندر بنیاد پرستی پرمبنی تشدد پھیل رہا ہے، تاجکستان اپنے ملک کے اندر غیر ملکی اثر و رسوخ کے خاتمے اور مذہبی شعائر کو کنٹرول کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔

دوشنبے سے’ وائس آف امریکہ‘ کے نامہ نگار جیمس بروک اپنی رپورٹ میں کہتے ہیں کہ تاجکستان میں پہلے خواتین کے مسجدوں میں داخلے پر پابندی لگائی گئی اور چند ہفتے قبل 18سال سے کم عمر افراد کو بھی حکومت نے مساجد میں داخلے سے روک دیا۔

تاجکستان کی کُل آبادی کا 98فی صد مسلمان ہیں اور یہ ملک افغانستان کے ساتھ طویل سرحد رکھتا ہے۔

روس کی حمایت والی تاجک حکومت ملک سے انتہا پسندی کو دور رکھنے کی خواہاں ہے۔

ایک تاجک بلاگر ظفر یداللہ یادیف اِن پابندیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ حکومت مذہبی پابندیوں کے سوویت دور اور آج کے ایسے اسلامی بنیاد پرستوں کے دور کو سامنے رکھتے ہوئے درمیان کا راستہ اختیار کررہی ہے جو روایتی طور پر ایک جدید ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں۔

غیر ملکی اثرو رسوخ اور روایتی مذہبی شعائر کو محدود بنانے کے لیے حکومت نے گذشتہ سال 2000ایسے تاجک طلبا کو واپس بلا لیا تھا جو بیرونی ممالک مذہبی مدرسوں میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔اِس کے ساتھ ساتھ، حکومت نے مَردوں کے داڑھیاں رکھنے اور خواتین کے تنگ حجاب پہننے کی بھی حوصلہ شکنی کی۔خواتین کو وسطی ایشیا کے روایتی ڈھیلے ڈھالے حجاب پہننا ہوتے ہیں۔

دوشنبہ کی مرکزی مسجد میں28سالہ ابوبکر جو ایک بینک میں کام کرتے ہیں اِن نئے قوانین سے متفق ہیں۔ وہ اپنی نوجوانی کے دِنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ،’ ٹین ایجرز عموماً ہُلڑ باز ہوتے ہیں، جب کہ دانش عمر کے ساتھ آتی ہے‘۔

لیکن، دوسری طرف محمدالدین کبیری پیش گوئی کرتے ہیں کہ حکومتی پابندیوں کا نتیجہ الٹا نکلے گا۔وہ تاجکستان میں Islamic Revival Partyیا احیائے اسلام پارٹی کے سربراہ ہیں۔ یہ واحد اسلامی جماعت ہے جو سوویت دور میں رجسٹر ہوئی تھی۔

اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کا کنٹرول مذہب کو انڈر گراؤنڈ کرتے ہوئے اِسے جدیدیت سے دور، طالبان ازم کی جانب لے جائے گا۔

اُنھوں نے کہا کہ ’ٹین ایجرز‘ پر مسجدوں کے دروازے بند کرنے سے پُر تجسس نوجوان انٹرنیٹ کے ذریعے اسلام کی سوجھ بوجھ حاصل کریں گے اور یہ بات خطرناک بھی ہوسکتی ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ اگر وہ ایک بار انٹرنیٹ پر چلے گئے تو یہ نوجوان آسانی سے انتہاپسندوں کی بنائی ہوئی ویب سائٹوں کے ہو کر رہ جائیں گے۔

پندرہ سال قبل، کبیری کے حامیوں کو امام علی رحمٰن کی سیکولر فورسز کے ہاتھوں خانہ جنگی کے دوران شکست ہوئی۔ رحمٰن آج بھی ملک کے صدر ہیں۔ اکتوبر میں اُنھوں نے وسط ایشیا کی سب سے بڑی مسجد کی بنیاد رکھی۔ قطر کی جانب سے 100ملین ڈالر کی امداد سمیت بھاری تخمینے سے تیار ہونے والی اِس مسجد میں ایک لاکھ 15ہزار نمازی بیک وقت نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اِس سرکاری مسجد کی بنیاد رکھنے کے بعد صدر رحمٰن کی حکومت نے اِس سال سینکڑوں کی تعداد میں مساجد اور مذہبی مدرسوں کو بند کرنا شروع کردیا ہے۔

قریبی مسجد کے ایک امام، عبد اللہ صدر رحمٰن کے اِس مؤقف کی حمایت کرتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم کے لیے والدین کو معاشرے کا مرکزی استاد ہونا چاہیئے۔

ایسے میں جب تاجکوں کی تعداد تاجکستان میں رہنے والوں سے زیادہ افغانستان میں مقیم ہے، جہاں شدت پسندی پھیل رہی ہے، دیکھنا یہ ہوگا کہ آنے والے دِنوں میں کیا تاجکستان میں انتہا پسندی سے لڑنے کی موجودہ حکومت کی تدابیر کامیاب رہتی ہیں یا نہیں۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG