رسائی کے لنکس

عیدالفطر پر طالبان اور افغان فورسز کے درمیان تین روزہ جنگ بندی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغانستان کے ذرائع ابلاغ اور وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق عیداالفطر کے موقع پر طالبان اور افغان فورسز کے درمیان تین روزہ جنگ بندی پر عمل درآمد کا آغاز بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب کے وسط (رات بارہ بجے) سے عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔

یہ عارضی جنگ بندی ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب وردک صوبے میں طالبان نے مزید تین اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے اور افغانستان کی وزارتِ دفاع پر اعتماد ہے کہ جنگ بندی پر عمل درآمد سے پہلے یہ اضلاع واپس لے لیے جائیں گے۔

اسی اثنا میں طالبان کے الگ ہونے والے دھڑے کا نائب سربراہ بھی ہرات صوبے میں افغان فورسز کی کارروائی میں زخمی ہو گیا ہے۔

افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان فواد امان نے کہا ہے کہ چھ صوبوں میں طالبان کے خلاف لڑائی میں افغان سکیورٹی فورسز نے چونسٹھ طالبان جنگجووں کو ہلاک کر دیا ہے۔

ہرات صوبے کے گورنر وحید قتالی نے تصدیق کی ہے کہ طالبان کے ایک الگ ہونے والے دھڑے کا ایک نائب راہنما ملا منان نیازی گزرا ڈسٹرکٹ میں حملے کے دوران زخمی ہو گیا جبکہ اس کے گروپ کے تین دیگر ارکان ہلاک ہو گئے ہیں۔

افغانستان کی وزارت صحت کے ترجمان طارق آریان نے بتایا ہے کہ طالبان نے رمضان کے مہینے کے دوران پندرہ خودکش اور دو سو کے قریب حملے بارودی سرنگوں کے ذریعے کیے۔ ان کے بقول ان حملوں میں دو سو پچاس سویلین مارے گئے جبکہ پانچ سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔

طالبان کے ایک سابق عہدیدار سید اکبر آغا کا کہنا ہے کہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کا سبب افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں بھی ہیں۔

عید کے موقع پر تین روزہ جنگ بندی کے حوالے سے افغانستان کے نیوز چینل ’طلوع‘ نے طالبان کے ترجمان کے حوالے سے بتایا تھا کہ یہ عارضی جنگ بندی بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب بارہ بجے نافذالعمل ہو سکتی ہے۔ ان کے بقول یہ جنگ بندی تین دن سے زیادہ وقت کے لیے نہیں ہو گی۔ دوسری جانب نجی ٹی وی کے مطابق افغان عوام نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ اس عارضی جنگ بندی کو مستقل جنگ بندی میں تبدیل کریں اور افغان فورسز کے خلاف حملوں کا سلسلہ عید کے بعد بھی بند رکھیں۔

قندوز میں افغان نیشنل پولیس کے ایک فوجی فرید احمد نے کہا ہے کہ اگر جنگ بندی میں توسیع ہوتی ہے تو ان کو خوشی ہو گی تاہم وہ اس جنگ میں خون کے آخری قطرے تک لڑنے کے لیے تیار ہیں۔

طالبان کے ترجمان اور ایک سابق کمانڈر سید اکبر آغا کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اس جنگ بندی میں توسیع ہو گی کیونکہ ان کے بقول اس کے پیچھے کوئی معاہدہ نہیں ہے۔

امن کے ایک سرگرم کارکن سنگار امیرزادہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے محض تین دن کی جنگ بندی پر طالبان پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ طالبان تین دن تک کسی کو قتل نہیں کریں گے اور لوگوں کو اس کے بعد موت کا انتظار کرنا چاہے۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق عام شہری اور سرگرم کارکن طالبان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ جنگ بندی میں توسیع کریں تاہم ان کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

ادھر امریکہ کے سابق سفیر رچرڈ اولسن نے افغان سروس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو طالبان کو واضح پیغام بھیجنا چاہیے کہ وہ مذاکرات کو سنجیدگی سے لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان بظاہر امن عمل میں شرکت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن دوسری طرف انہوں نے موسم بہار میں حملوں کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔

XS
SM
MD
LG