رسائی کے لنکس

استنبول کانفرنس میں شرکت کے لیے طالبان نے نئی شرائط رکھ دیں


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغان طالبان نے اقوامِ متحدہ کے توسط سے ترکی میں منعقد ہونے والی مجوزہ کانفرنس میں شرکت کے لیے نئی شرائط پیش کر دی ہیں۔ اس کانفرنس کا مقصد افغانستان کی صورتِ حال کو زیرِ غور لانا ہے۔

طالبان کے ایک سینئر رہنما نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ وہ کانفرنس میں اسی صورت میں شرکت کر سکتے ہیں جب اس بات کی ضمانت دی جائے کہ کانفرنس کا دورانیہ مختصر ہو گا، کئی اہم معاملات پر فیصلہ سازی کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہو گی اور طالبان کا وفد جونیئر قیادت پر مشتمل ہو گا۔

وائس آف امریکہ کے لیے طاہر خان کی رپورٹ کے مطابق طالبان رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کی قیادت نے تجویز پیش کی ہے کہ استنبول کانفرنس تین روز سے زیادہ طویل نہیں ہونی چاہیے۔

طالبان کے ایک اور سینئر رہنما نے وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر مذکورہ خبر کی تصدیق کی ہے۔

افغانستان کی صورتِ حال پر استنبول کانفرنس کی میزبانی مشترکہ طور پر اقوامِ متحدہ، ترکی اور قطر کریں گے۔ تاہم، کانفرنس کی حتمی تاریخ کا اب تک کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔

یاد رہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے 11 ستمبر تک افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کے اعلان کے بعد واشنگٹن نے اپریل میں استنبول کانفرنس کی تجویز دی تھی۔

طالبان نے افغان امن عمل کے سلسلے میں روس کے دارالحکومت ماسکو میں اسی طرح کی ایک کانفرنس میں شرکت کی تھی، لیکن انہوں نے ترکی میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر لی تھی۔

طالبان کا مؤقف تھا کہ وہ مذکورہ کانفرنس اور دیگر معاملات پر غور کر رہے ہیں۔

طالبان کے قطر میں واقع سیاسی دفتر کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شیخ عبدالحکیم اور کئی دیگر رہنماؤں نے اپنی تنظیم کے قائد ہیبت اللہ اخونزادہ اور دیگر سے مشاورت کے لیے خطے کا دورہ کیا تھا۔

ملا فاضل، ملا شیریں اور ملا عبدالمنان بھی شیخ عبدالحکیم کے ہمراہ تھے۔ طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے یہ تمام ارکان طالبان کی رہبر شوریٰ کے رکن بھی ہیں۔

طالبان رہنما کے مطابق استنبول کانفرنس میں شرکت سے متعلق قیادت سے مشاورت کا عمل تقریباً ایک ماہ تک جاری رہا اور یہ گزشتہ ہفتے ہی اختتام کو پہنچا ہے۔

افغان میڈیا کے مطابق طالبان رہنماؤں کی بات چیت کا عمل پاکستان میں ہوا ہے، جہاں افغان حکومت کے مطابق، بیشتر طالبان قیادت مقیم ہے۔

امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے بھی حال ہی میں جرمن نیوز ویب سائٹ 'ڈیر اشپیگل' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس دعوے کی تصدیق کی تھی۔

خلیل زاد کا کہنا تھا کہ اگر امن کی یہ کوششیں کامیاب نہ ہوئیں اور پاکستان و افغانستان کے درمیان کوئی معاہدہ نہ ہوا تو پاکستان کو اس کا نقصان برداشت کرنا ہو گا۔

ان کے بقول، پاکستان کو ناکامی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ بیشتر طالبان قیادت وہیں مقیم ہے۔

دوسری جانب پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے کی جانے والی کوششوں میں مدد کے لیے طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہا ہے۔

طالبان رہنما کا کہنا ہے کہ طالبان قیادت استنبول کانفرنس میں شرکت کی حامی نہیں۔ تاہم، وہ پاکستان اور قطر کی درخواست پر چند شرائط کے ساتھ کانفرنس میں شرکت کریں گے۔

مشاورت میں کون کون سے رہنما شامل ہیں؟ اس حوالے سے طالبان رہنما نے تفصیلات نہیں بتائیں اور نہ ہی انہوں نے یہ بتایا کہ استنبول کانفرنس میں طالبان کی نمائندگی کون کرے گا۔

دوسری جانب افغان حکومتی ٹیم کے ترجمان نادر ندیری نے کہا ہے کہ وہ طالبان کی استنبول کانفرنس میں شرکت سے متعلق شرائط سے لاعلم ہیں اور اب تک ان سے باقاعدہ طور پر کوئی معلومات شیئر نہیں کی گئیں۔

امریکہ، ترکی اور افغانستان نے تجویز دی تھی کہ طالبان کے قطر میں موجود سیاسی دفتر کی مذاکراتی ٹیم کے ارکان کے بجائے طالبان کے ایک یا اس سے زائد سینئر رہنما استنبول کانفرنس میں شرکت کریں۔

مذکورہ ملکوں نے پسِ پردہ بریفنگ کے دوران کہا ہے کہ وہ ملا عبدالغنی برادر سمیت طالبان کے قطر آفس کے رہنماؤں پر یقین نہیں رکھتے کہ مذاکرات کے دوران ان کے پاس کوئی فیصلہ سازی کا اختیار ہو گا۔

امریکہ نے 10 روزہ اجلاس کی تجویز دی تھی جس میں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندے ایک ساتھ بیٹھ کر اپنے اختلافات دور کر سکیں اور امن کی جانب بڑھنے کے لیے کئی اہم فیصلے کریں۔

جب طالبان رہنما سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی قیادت نے جنگ بندی کا کوئی فیصلہ کیا ہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ اب تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

ان کے بقول طالبان اس موقع پر جنگ بندی کا اعلان نہیں کریں گے اور نہ ہی ایسا کوئی فیصلہ بین الافغان مذاکرات کے دوران کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ ترکی، قطر اور اقوامِ متحدہ نے استنبول میں 24 اپریل سے چار مئی تک کانفرنس کا منصوبہ بنایا تھا جس میں افغان حکومت کے نمائندوں اور طالبان رہنماؤں کو شرکت کرنا تھی۔

اس سے قبل یہی دس روزہ کانفرنس 16 اپریل سے شروع ہونا تھی جسے طالبان کی عدم شرکت کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا تھا۔

ترک وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری مشترکہ بیان کے مطابق استنبول کانفرنس کا مقصد گزشتہ برس ستمبر میں دوحہ میں شروع ہونے والے بین الافغان امن مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھانا تھا۔

طالبان نے شکوہ کیا تھا کہ منتظمین نے اجلاس کی تفصیلات کا تبادلہ نہیں کیا لیکن اس بار طالبان کا کہنا ہے کہ ترکی ان سے رابطے میں ہے۔

افغان صدر اشرف غنی اور افغانستان کی اعلیٰ مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کے دفتر نے طالبان کے ساتھ مذاکرات پر زور دیا ہے اور انہوں نے امن کے لیے اپنی تجاویز مرتب کر لی ہیں جسے استنبول کانفرنس میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے ایک وفد نے اپریل کے آخری ہفتے میں طالبان کے قطر میں موجود سیاسی نمائندوں سے ملاقات کی تھی جس کے دوران انہوں نے طالبان کو استنبول کانفرنس میں شرکت کرنے اور اپنی تجاویز پیش کرنے پر زور دیا تھا۔

طالبان رہنما نے بتایا ہے کہ پاکستانی وفد نے انہیں کہا تھا کہ وہ اپنا مستقبل کا لائحہ عمل استنبول کانفرنس میں پیش کریں؛ اسی طرح جیسے افغان حکومت اور افغان مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے اپنا لائحہ عمل تیار کر رکھا ہے، جسے استنبول کانفرنس میں پیش کیا جا سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG