رسائی کے لنکس

افغانستان کے دو بڑے شہروں قندھار اور ہرات پر طالبان کا قبضہ


افغانستان کی حکومتی سیکیورٹی فورسز ایک ہفتے سے عسکریت پسندوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے سخت مشکلات سے دوچار ہے۔
افغانستان کی حکومتی سیکیورٹی فورسز ایک ہفتے سے عسکریت پسندوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے سخت مشکلات سے دوچار ہے۔

طالبان نے افغانستان کے دو بڑے شہروں قندھار اور ہرات پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ دونوں شہر کابل کے بعد افغانستان کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہر ہیں۔ خدشہ ہے کہ اس قبضے سے ایک ایسے وقت میں افغان حکومت کا دائرہ مزید محدود ہو جائے گا جب امریکی افواج کے انخلا کے مکمل ہونے کی تاریخ قریب آرہی ہے۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق جمعرات کی شب قندھار اور ہرات پر قبضے سے طالبان افغانستان کے 34 میں سے 12 صوبائی دارالحکومتوں پر قابض ہو گئے ہیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز نے جمعے کو رپورٹ کیا ہے کہ افغان حکام نے قندھار شہر پر طالبان کے قبضے کی تصدیق کی ہے۔

اگرچہ اب تک افغان دارالحکومت کابل خطرے کی زد میں نہیں آیا تاہم دیگر مقامات پر باغیوں سے لڑائی میں نقصانات اور افغانستان کے لگ بھگ دو تہائی علاقے پر قبضے طالبان کو مضبوط بنا رہے ہیں۔

افغانستان کی حکومتی سیکیورٹی فورسز ایک ہفتے سے عسکریت پسندوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے سخت مشکلات سے دوچار ہے۔

امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ ہم ایک مرتبہ پھر مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر شہروں پر حملوں کا سلسلہ ترک کرتے ہوئے سیاسی مصالحت کے راستے کا انتخاب کیا جائے۔

انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں خبردار کیا کہ بزور طاقت مسلط ہونے والی حکومت کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔

سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال میں امریکہ نے کابل کے امریکی سفارت خانے کے عملے کو بحفاظت نکالنے کے لیے تین ہزار مزید امریکی فوجی افغانستان بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔

برطانیہ کی وزارتِ دفاع نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان سے برطانوی شہریوں کے انخلا کے لیے 600 برطانوی فوجی مختصر عرصے کے لیے افغانستان روانہ کرے گا۔

افغان قانون ساز سیمیں بارکزئی نے ہرات شہر پر طالبان کے قبضے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ بعض سرکاری عہدیدار شہر سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

ہرات گزشتہ دو ہفتوں سے طالبان کے حملوں کی زد میں تھا۔ ایک مقامی جنگجو سردار اسماعیل خان اور ان کی فورسز نے طالبان کے خلاف مزاحمت بھی کی تاہم جمعرات کی سہ پہر طالبان شہر کا دفاع توڑنے میں کامیاب ہو گئے۔

اس سے پہلے غزنی پر باغیوں کے قبضے سے کابل کو افغانستان کے جنوبی صوبوں سے ملانے والی شاہراہ بند ہو گئی اور ان صوبوں کو بھی حملے کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

ہزاروں کی تعداد میں افغان شہری طالبان کے دوبارہ حکومت میں آنے کے خوف سے اپنے گھروں کو چھوڑ کر نقل مکانی کر رہے ہیں۔

قطر میں امن مذاکرات اب بھی تعطل کا شکار ہیں حالانکہ سفارت کار جمعرات کو پورا دن ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔

ہتھیار ڈالنے والے غزنی کے گورنر گرفتار

افغان صوبے غزنی کے کونسل رکن ناصر فقیری کے مطابق غزنی کے گورنر محمد داؤد لغمانی نے مبینہ طور پر ہتھیار ڈالتے ہوئے صوبہ طالبان کے حوالے کر دیا اور وہ خود سینئر عہدیداروں کے ساتھ کابل روانہ ہو گئے ہیں۔

افغانستان کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے جمعرات کی شب دیر گئے ان اطلاعات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ لغمانی اور ان کے ساتھیوں کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا تھا جب وہ غزنی سے کابل آ رہے تھے۔

وزارتِ داخلہ کا مزید کہنا ہے کہ اس بارے میں تحقیقات جاری ہیں کہ آیا غزنی کے گورنر نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شہر کو طالبان کے حوالے کیا؟

طارق فرہادی افغان حکومت کے سابق مشیر ہیں اور تجزیہ کار ہیں۔ ان کے بقول "غزنی پر بنا لڑائی کے قبضہ ہونے کے بعد فوجی آپشن ختم ہو گیا ہے۔ طالبان کابل کے دروازے تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ لازمی ہے کہ ہم دارالحکومت کے اندر لڑائی سے گریز کریں۔"

طالبان نے قندھار کی سینٹرل جیل سے قیدی رہا کر دیے

مقامی شہریوں نے جمعرات کو اطلاع دی ہے کہ جنوب مشرق کے دو شورش زدہ صوبائی دارالحکومتوں قندھار اور لشکر گاہ میں شدید لڑائی دیکھنے میں نہیں آئی۔

طالبان نے قندھار پر چڑھائی کے دوران جمعرات کی شب لڑائی کے بعد سینٹرل جیل پر قبضہ کر لیا اور عسکریت پسند جنگجوؤں سمیت تمام قیدیوں کو رہا کر دیا۔

میجر محمد صادق عیسٰی علاقائی فوج کے ترجمان ہیں۔ انہوں نے وئس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ طالبان بدھ سے اس جیل پر بے دھڑک حملے کر رہے تھے۔ البتہ انہوں نے مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا اور کہا کہ اس جیل کو مناسب سیکیورٹی فراہم کی گئی تھی۔

ایک سیکیورٹی آفیسر نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا ہے کہ جیل گارڈز نے حملہ آوروں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے اور حملہ آوروں کو تین ہزار کے قریب قیدیوں کو رہا کرنے کا راستہ فراہم کیا۔

قندھار اور لشگر گاہ میں لڑائی نے ٹیلی فون کمپنیوں کو اپنے آپریشن معطل کرنے پر مجبور کر دیا ہے جس کے بعد مقامی شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا جو وہاں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ مکین جنگی علاقہ چھوڑنے اور اپنے عزیز رشتہ داروں کے ساتھ رابطہ کرنے سے بھی قاصر ہیں۔

اس خبر میں شائع بعض معلومات خبر رساں اداروں 'رائٹرز' اور 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG