رسائی کے لنکس

امریکہ اور برطانیہ کا افغانستان سے اپنے شہری نکالنے کے لیے فوجی دستے بھیجنے کا اعلان


قندھار کے ایک فوجی مرکز میں افغان نیشنل آرمی کا ایک دستہ چاک و چوبند کھڑا ہے۔ 12 اگست کو بظاہر معمولی مزاحمت کے بعد طالبان نے قندھار کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ بدلتی صورت حال کے باعث امریکہ اور برطانیہ نے ملک سے اپنے شہری نکالنے کے لیے اپنے فوجی دستے بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔
قندھار کے ایک فوجی مرکز میں افغان نیشنل آرمی کا ایک دستہ چاک و چوبند کھڑا ہے۔ 12 اگست کو بظاہر معمولی مزاحمت کے بعد طالبان نے قندھار کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ بدلتی صورت حال کے باعث امریکہ اور برطانیہ نے ملک سے اپنے شہری نکالنے کے لیے اپنے فوجی دستے بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔

افغانستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر امریکہ اور برطانیہ نے وہاں سے اپنے شہریوں کے بحفاظت انخلا کے لیے فوری طور پر فوجی دستے بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکہ تین ہزار جب کہ برطانیہ اپنے چھ سو فوجی بھیج رہا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ کابل کے امریکی سفارت خانے میں تعینات سویلین عملے میں کچھ کمی کی جا رہی ہے، اور کچھ ارکان کو واپس بلایا جا رہا ہے۔

جمعرات کے دن اخباری بریفنگ کے دوران، ترجمان نے واضح کیا کہ کابل کا سفارت خانہ بند نہیں کیا جا رہا۔ تاہم، سیکیورٹی اور امن و امان کی صورت حال کے پیش نظر، دیگر اقدامات کرنا ضروری ہو گیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس۔ فائل فوٹو
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس۔ فائل فوٹو

ادھر امریکی عہدیداروں نے بتایا ہے کہ امریکہ اپنے تین ہزار اضافی فوجی افغانستان بھیج رہا ہے جو کابل میں امریکی سفارتی عملے کے انخلاء میں مدد دیں گے۔

امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ یہ فوجی افغانستان میں پہلے سے موجود 650 فوجیوں سے جا ملیں گے۔

اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا تھا کہ افغانستان میں سیکیورٹی کی تیزی سے بگڑتی صورتِ حال کے پیشِ نظر امریکہ کابل میں اپنے سفارت خانے کے عملے میں کمی کر رہا ہے اور کچھ عملہ واپس بلا رہا ہے۔ تاہم سفارت خانہ اپنا کام کرتا رہے گا۔

محکمہ خارجہ کے ​ترجمان نے اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکہ اور بین الاقوامی برادری طالبان کی جانب سے طاقت کے ذریعے اقتدار کے حصول کی کسی بھی کوشش کی کسی طور پر حمایت نہیں کرے گی۔

کابل میں امریکی سفارت خانے کی عمارت، فائل فوٹو
کابل میں امریکی سفارت خانے کی عمارت، فائل فوٹو

بقول ترجمان، ''ہم بین الافغان اور افغان قیادت کے تحت ہونے والی امن بات چیت کی مکمل حمایت جاری رکھیں گے۔''

برطانیہ کا چھ سو فوجی بھیجنے کا اعلان

برطانیہ کی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ مختصر وقت کے لئے 600 برطانوی فوجی افغانستان بھیجے جا رہے ہیں۔ جوافغانستان میں طالبان کی پیش قدمی کے بعد سیکیورٹی کی صورتِ حال پر بڑھتی ہوئی تشویش کے سبب برطانوی شہریوں کے ملک سے نکلنے میں مدد دیں گے۔

برطانوی وزارت دفاع کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جہاں ضرورت ہوئی یہ فوجی برطانیہ کے شہریوں کو تحفظ اور سازوسامان مہیا کریں گے۔ اور ان افغان شہریوں کو کسی اور مقام پر منتقل کرنے میں بھی مدد دیں گے، جنہوں نے برطانوی فورسز کے لئے مترجم کے اور دیگر فرائض ادا کئے تھے۔ وزارت نے جمعرات کو اپنے بیان میں کہا ہے کہ توقع ہے کہ یہ اضافی فوجی آئندہ چند روز میں کابل پہنچ جائیں گے۔

وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس سے قبل کابل میں امریکی سفارت خانے کی طرف سے جاری ہونے والے ایک نوٹس میں کہا گیا تھا کہ طالبان کی جاری پیش قدمی اور افغانستان کے دارالحکومت کے قریب واقع حکمت عملی کے حامل شہر پر قبضہ کیے جانے کے بعد، ضروری ہو گیا ہے کہ امریکی شہری فوری طور پر افغانستان سے چلے جائیں۔

سفارت خانے کا نوٹس جو ویب سائٹ پر شائع ہوا کہا گیا ہے کہ دستیاب کمرشل پروازوں کے ذریعے امریکی شہریوں کو فوری طور پر افغانستان سے چلے جانا چاہیے۔

ایمبسی نے ان شہریوں کی مالی معاونت کرنے کی بھی پیش کش کی جو رقم دستیاب نہ ہونے یا دیگر وجوہ کی بنا پر فوری طور پر باہر نہیں نکل سکتے۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی صورت حال کے پیش نظر اور عملے میں کمی لانے کے فیصلے کے نتیجے میں افغانستان میں موجود امریکی شہریوں کو ضروری مدد فراہم کرنے کی استعداد انتہائی محدود ہو گئی ہے۔

جمعرات کے روز طالبان نے افغانستان کے دو بڑے شہروں ہرات اور قندھار پر قبضہ کر لیا ہے۔ مئی میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کے شہروں پر آئے دن قبضے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کی تاریخ نزدیک آتی جا رہی ہے اور امریکی فوجی انخلا کے بعد طالبان کا مقابلہ کرنا افغان حکومت کا سب سے بڑا چیلنج ہو گا، جسے اب امریکی فوج کی حمایت حاصل نہیں ہے۔

27 اپریل کو امریکی حکومت نے احکامات جاری کیے تھے کہ اگر ممکن ہو تو سفارت خانے کا کام باہر سے کیا جائے، جس کی بنیاد تشدد کے واقعات میں اضافے کے خدشات کی وجہ سے تھی۔

گزشتہ ہفتے، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بتایا تھا کہ سفارت خانے میں عملے کی تعیناتی پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ تاہم، انہوں نے مزید کہا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر امریکی حکومت درپیش خدشات کا جائزہ لیتی رہتی ہے۔

XS
SM
MD
LG