رسائی کے لنکس

شبرغان کے بعد طالبان کا قندوز اور سرِ پل پر بھی قبضے کا دعویٰ، افغان حکومت کی تردید


افغان طالبان نے صوبہ جوزجان کے دارالحکومت شبرغان کے بعد قندوز اور سرِ پل پر قبضے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ جوزجان کے ایک مقامی قانون ساز نے تصدیق کی ہے کہ طالبان شبرغان سمیت صوبے کے 10 میں سے نو اضلاع پر قبضہ کر چکے ہیں۔

افغان حکومت نے مقامی قانون ساز محمد کریم جوزجانی کے دعوے کی تردید نہیں کی۔ البتہ حکام کا کہنا ہے کہ طالبان شبرغان میں داخل ہو چکے ہیں تاہم اُن کا شہر پر اب بھی قبضہ نہیں ہوا۔

طالبان نے اتوار کو ایک بیان میں قندوز اور سرِ پل پر بھی قبضے کا دعویٰ کرتے ہوئے بیان جاری کیا کہ طالبان جنگجوؤں نے قندوز میں گورنر کے کمپاؤنڈ، پولیس ہیڈ کوارٹرز اور جیل کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

عرب نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' کے مطابق مقامی ذرائع اور صحافیوں نے تصدیق کی ہے کہ طالبان جنگجو قندوز شہر میں داخل ہو چکے ہیں۔

وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق قندوز اور سرِپل کی صوبائی حکومتوں نے قندوز اور سرِ پل پر طالبان کے قبضے کی تردید کی ہے۔ صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں افغان فورسز اور طالبان کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔

افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان فواد امان کا کہنا تھا کہ افغان فورسز کی کارروائیوں میں دہشت گردوں کو بھاری جانی نقصان پہنچایا گیا ہے۔

ایک ٹوئٹ میں اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ افغان نیشنل اینڈ ڈیفنس فورسز کی مختلف کارروائیوں میں صوبہ قندوز جوزجان، ہلمند، قندھار، لغمان، نمروز، فریاب، ننگرہار، پکتیا، پکتیکا، غزنی اور بدخشاں میں 572 دہشت گرد ہلاک اور 309 زخمی ہوئے ہیں۔

طالبان نے حالیہ دنوں میں افغانستان میں صوبائی دارالحکومتوں پر اپنے حملے تیز کیے ہیں۔ اس سے قبل طالبان نے جنوب مغربی صوبے نمروز کے صوبائی دارالحکومت زرنج پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔

البتہ افغان حکومت کا دعویٰ ہے کہ شہر میں ابھی افغان فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی جاری ہے۔

شبرغان کو اس لحاظ سے اہم سمجھا جاتا ہے کیوں کہ یہ امریکہ کے اہم اتحادی جنگجو عبدالرشید دوستم کا گڑھ سمجھا جاتا ہے جن کی ملیشیا اب افغان فورسز کے شانہ بشانہ طالبان کے خلاف سرگرم ہو چکی ہے۔

شبرغان کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ طالبان کے شہر میں داخلے کی خبروں کے بعد یہاں فضائی بمباری بھی کی گئی ہے جب کہ طالبان کی جانب سے یہاں کی جیل سے قیدیوں کو رہا کرانے کی بھی اطلاعات ہیں۔

طالبان نے مئی میں امریکی فوج کی جانب سے انخلا میں تیزی کے بعد افغانستان کے کئی اضلاع میں تیزی سے پیش قدمی کی تھی جن میں سے زیادہ تر دیہی علاقے تھے۔ البتہ حالیہ دنوں میں طالبان نے اب اپنی ساری توجہ صوبائی دارالحکومتوں کی جانب مبذول کر رکھی ہے۔

کیا آج کے طالبان ماضی کے طالبان سے مختلف ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:36 0:00

ادھر امریکی حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا 95 فی صد مکمل ہو چکا ہے جب کہ 31 اگست تک یہ مکمل ہو جائے گا۔

البتہ امریکی فضائیہ افغان فورسز کی مدد کے لیے طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہی ہے۔ تازہ فضائی حملوں میں امریکی فضائیہ نے قندھار اور ہلمند میں طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔

طالبان کی کارروائیوں پر امریکی سفارت خانے کی مذمت

ادھر ہفتے کو کابل میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں طالبان کی مہم جوئی کی مذمت کی گئی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی یہ کارروائیاں افغان دھڑوں کے ساتھ افغان تنازع کے پرامن سیاسی تصفیے کے وعدے کی نفی ہیں۔

بیان میں فوری جنگ بندی پر زور دیتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

امریکی سفارت خانے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ فریقین کو ایسے سیاسی تصفیے پر بات چیت کرنی چاہیے جو نہ صرف افغان عوام کی مشکلات کم کرے بلکہ افغانستان کو دوبارہ دہشت گردوں کی آماجگاہ بننے سے روکے۔

قبل ازیں جمعے کو طالبان نے کابل میں افغان میڈیا اینڈ انفارمیشن سینٹر کے ڈائریکٹر داوا خان مینہ پال کو ہلاک کرنے کی ذمے داری قبول کی تھی۔

اس خبر کے لیے بعض معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' اور عرب نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG