رسائی کے لنکس

افغان طالبان کا پاکستان پر کنڑ اور خوست میں فضائی حملوں کا الزام


افغانستان میں طالبان کی وزارتِ خارجہ نے ہفتے کو کابل میں پاکستان کے سفیر منصور خان کو طلب کر کے مبینہ فضائی کارروائی پر احتجاج بھی کیا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی وزارتِ خارجہ نے ہفتے کو کابل میں پاکستان کے سفیر منصور خان کو طلب کر کے مبینہ فضائی کارروائی پر احتجاج بھی کیا ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارتِ دفاع نے پاکستان پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کے لڑاکا طیاروں نے سرحدی علاقوں کنڑ اور خوست میں بم باری کی ہے۔ طالبان حکومت نے افغانستان میں تعینات پاکستانی سفیر کو بھی وزارتِ خارجہ میں طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔

پاکستانی سفیر سے ملاقات میں طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ مولوی امیر خان متقی اور نائب وزیر دفاع الحاج ملا شیرین اخوند نے بھی شرکت کی۔

طالبان کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق امیر خان متقی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ خوست اور کنڑ جیسے واقعات کو روکنا بہت ضروری ہے۔

طالبان کی جانب سے پاکستانی سفیر منصور خان کو تنبیہ کی گئی کہ وہ اس حوالے سے اعلیٰ پاکستانی حکام کو آگاہ کریں۔

افغان طالبان ذرائع کی جانب سے یہ دعوے سامنے آ رہے ہیں کہ ہفتے کی صبح پاکستانی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں 30 سے زائد افراد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے۔

خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں افغانستان سے متصل پاکستان کے قبائلی اضلاع میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر مختلف حملوں میں نو سیکیورٹی اہل کار ہلاک جب کہ چھ زخمی ہو گئے تھے۔

صوبۂ خوست پاکستان کے سابق قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے متصل ہے۔

پاکستانی فوج اور دفتر خارجہ کی جانب سے اس حوالے سے تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے صوبۂ خوست میں مقیم صحافی یوسف منگل نے بتایا کہ خوست پر پاکستانی طیاروں کی بمباری کے خلاف شہر میں سینکڑوں افراد نے مظاہرہ کیا۔ جس میں پاکستان مخالف نعرے بازی کی گئی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مقامی شہریوں کے مطابق پاکستانی طیاروں کی جانب سے حملہ رات تین بجے کے قریب کیا گیا۔

خوست اور کنڑ کے حملوں کے حوالے سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانی فوج نے افغانستان میں مقیم مہاجر کیمپ پر حملہ کیا ہے۔

ٹی ٹی پی کے مطابق ماہ رمضان میں ان کے جنگجوؤں نے پاکستانی فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے خلاف 28 حملے کیے ہیں۔

حال ہی میں پاک فوج کی جانب سے کی جانے والی پریس کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ اس سال کے پہلے تین مہینوں کے دوران سیکیورٹی فورسز کے افسران سمیت 97 افراد ہلاک ہوئے جب کہ سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 128 دہشت گرد ہلاک اور 256 کو گرفتار کیا گیا۔

پچھلے سال اگست میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کو یہ امید تھی کہ افغان طالبان کی جانب سے اپنی سر زمین کو پاکستان کے خلاف محفوظ بنایا جائے گا۔

پاکستان کی جانب سے متعدد بار افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے حملوں اور سرحد پار کارروائیوں کی روک تھام کے بارے میں کہا گیا تاہم اس بابت پاکستانی درخواست کی کوئی خاص شنوائی نہیں ہوئی ہے۔

افغان طالبان نے پاکستانی حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان بطور سہولت کار کردار ادا کرتے ہوئے فریقین کے درمیان مذاکرات بھی شروع کرائے۔ جس کی بدولت گزشتہ سال نومبر میں ایک ماہ کے لیے جنگ بندی کا اعلان بھی کیا گیا تاہم بعدازاں حملوں میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔

اس سے قبل دسمبر میں ایک راکٹ حملے کا الزام بھی پاکستان پر عائد کیا گیا تھا۔ جس میں ٹی ٹی پی کے سینئر کمانڈر مولوی فقیر محمد کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا تھا تاہم وہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔

افغان امور کے ماہر اور شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سوئیڈن میں مقیم محقق عبدالسید افغان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ مبینہ حملے پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کے تیزی سے بڑھتے ہوئے حملوں کا ردِعمل ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کا دعوی ہے تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو پاکستان سے متصل ان افغان سرحدی علاقوں میں روپوش ہیں جہاں یہ حملے کیے گئے ہیں۔

پاکستانی طالبان نے دو اپریل سے پاکستان میں حکومت اور سیکیورٹی فورسز کے خلاف البدر نامی آپریشن کا جو اعلان کیا ہے۔ اس کے بعد ان کے حملوں میں مزید شدت آئی ہے۔

XS
SM
MD
LG