رسائی کے لنکس

ٹیپی گیس پائپ لائن منصوبے سے جڑی امیدیں اور شکوک و شبہات


ٹیپی گیس پائپ لائن منصوبے سے جڑی امیدیں اور شکوک و شبہات
ٹیپی گیس پائپ لائن منصوبے سے جڑی امیدیں اور شکوک و شبہات

اس ہفتے وفاقی کابینہ کی طرف سے ترکمانستان، افغانستان پاکستان اور بھارت گیس پائپ لائن کے مجوزہ منصوبے یعنی ٹیپی کے فریم ورک کی منظوری دی گئی جس کے بعد جہاں ایک طرف اس پر عمل درآمد کی امیدیں بحال ہوئیں تو وہیں ان روایتی شکوک و شبہات کا بھی اظہار کیا جانے لگا ہے کہ افغانستان میں سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور عدم استحکام کے تناظرمیں اس کی تعمیر مستقبل قریب میں مشکل دکھائی دیتی ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ پر امید ہے کہ پڑوسی ملک افغانستان میں حالات مستقبل میں بہتر ہوں گے اور گیس منصوبے پر عمل درآمد کی راہ ہموار ہوگی۔

مبصرین کا ماننا ہے کہ ٹیپی کا منصوبہ چاروں ملکوں کی ترقی اور خوشحالی کے لیے نہایت اہم ہے لیکن ان کے مطابق اس پر عمل در آمد صرف تب ہی ممکن ہے اگر فریقین خلوص نیت سے ان تمام رکاوٹوں کو دور کریں جو گذشتہ دو دہائیوں کے دوران اس کی راہ میں حائل رہیں اور جن کی وجہ سے خطہ مجوزہ منصوبے کے ثمرات سے محروم رہا۔

طارق عثمان حیدر1990ء کی دہائی میں پانچ سال تک ترکمانستان میں پاکستان کے سفیر رہے اور ان کا ماننا ہے افغانستان میں سکیورٹی کی خراب صورتحال کے باوجود ٹیپی نہ صرف سو فیصد قابل عمل منصوبہ ہے بلکہ اس کی تعمیر جنگ سے متاثرہ ملک میں استحکام قائم کرے گی۔ ’’اگر امریکہ اور مغربی ملک اس گیس پائپ لائن کے منصوبے کے لیے سرمایہ کاری کریں تو توانائی کے شعبے میں علاقائی تعاون کی ایک ’راہ داری‘ قائم ہوسکتی ہے اور افغانستان کو اس مد میں پیسہ ملے گا، اس سے لاکھوں نوکریاں ملیں گی اوراس طرح ملک کو مستحکم بنانے میں مدد ملے گی‘‘۔

طارق عثمان حیدر کا کہنا ہے کہ وسطی ایشیائی ریاستیں توانائی کے وسائل سے مالا مال ہیں اس سے مستفید ہونے کے لیے مغربی ملکوں کے علاوہ بھارت اور چین میں بھی مسابقت کی دوڑ ہے اور یہ کہ توانائی کے سنگین بحران کے شکار پاکستان کو بھی یہ موقع نہیں گنوانا چائیے۔

پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر شبیر احمد خان بھی سابق سفیر کی اس رائے سے متفق ہیں کہ افغا نستان میں سلامتی کی صورتحال گیس منصوبے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی جس کی ایک مثال ان کے مطابق یہ ہے کہ چیچنیا میں شورش کے باوجود روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے درمیان اس کے راستے توانائی کے شعبے میں تعاون جاری ہے۔

لیکن ان کے مطابق ٹیپی پر عمل درآمد میں بعض اوررکاٹیں بھی ہیں۔

’’بیس سال سے ٹیپی پر غور توہو رہا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے چاروں ملکوں کے پاس پیسے اور تکنیکی مہارت دونوں کی کمی ہے جسے پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ روس بھی ٹیپی پر عمل درآمد نہیں چاہتا کیوں کہ وہ وسط ایشیائی ریاستوں کی توانائی کے وسائل پر اپنی اجارہ داری چاہتا ہے‘‘۔

اسی ہفتے روسی حکام نے اپنے ملک کی ایک کمپنی کے ٹیپی منصوبے میں شرکت کا امکان بھی ظاہر کیا تھا لیکن ترکمانستان نے بعد ازاں اسے مسترد کر دیا۔

دنیا میں قدرتی گیس کے وسائل کے چوتھے بڑے ذخائر ترکمانستان میں ہیں ۔

ٹیپی منصوبے کی لاگت تین ارب ڈالرسے زیادہ ہے۔ جس کے تحت دو ہزار کلو میٹرطویل لائن بچھا کر ترکمانستان سے افغانستان پاکستان اور بھارت کے لیے ابتدائی طور پر سالانہ تینتیس ارب کیوبک میٹرگیس درآمد کی جا سکے گی ۔

گذشتہ ماہ چاروں ملکوں کے وزراء نے اشک آباد میں اس منصوبے کے فریم ورک پر دستخط کیے تھے اور پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ چاروں حکومتوں کی منظوری کے بعد منصوبے کے حتمی معاہدے پر دستخط ہو سکیں گے۔

توانائی کے سنگین بحران کا شکار پاکستان امریکہ کی مخالفت کے باوجود ایران کے ساتھ ساڑھے سات ارب ڈالر کے گیس پائپ لائن معاہدے پردستخط کر چکا ہے لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک کی توانائی کی ضروریات اتنی زیادہ ہیں کہ محض ایک معاہدہ کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ ٹیپی پر عمل در آمد بھی ناگزیر ہے۔

افغانستان کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں کیا مستقبل قریب میں ایسا ممکن ہے اس بارے میں اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یعنی اپری کے سربراہ مقصود الحسن نوری زیادہ پر امید نہیں۔ ’’ٹیپی کا منصوبہ پوری طرح قابل عمل ہے اور اس پر بلآخر عمل درآمد ضرور ہوگا لیکن اسے شروع ہونے میں کتنا وقت لگے گا، پاچ سال، چھ سال یہ نہیں کہا جا سکتا‘‘۔

XS
SM
MD
LG