آسٹریلیا کے سائنس دانوں نے ایک نئے تحقیقاتی رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ جتنا زیادہ ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں وہ اتنا ہی جلد موت کے منہ میں جاسکتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر وہ گھنٹہ جو کوئی شخص ٹیلی ویژن دیکھتے ہوئے گزارتا ہے اس کے قبل از وقت موت کے خطرے میں اضافہ کرتا ہے۔ اس مطالعاتی جائزے کا اہتمام میلبرن میں بیکر آئی ڈی آئی ہارٹ اینڈ ڈایابیٹیس انسٹی ٹیوٹ نے کیا تھا۔
اس مطالعے کے دوران ماہرین نے آسٹریلیا کے آٹھ ہزار سے زیادہ بالغ افراد پر چھ سال تک تحقیق کی۔ اس تحقیق کے نتائج باقاعدگی سے ٹیلی ویژن دیکھنے والوں کے لیے انتہائی پریشان کن ہوسکتے ہیں۔ نتائج سے یہ ظاہر ہوا کہ اس مدت کے دوران سب سے زیادہ ٹیلی ویژن دیکھنے والوں کا انتقال نسبتاً کم عمر میں ہوا۔
میلبرن کی اس تحقیق کے سربراہ پروفیسر ڈیوڈ ڈنسٹن تھے، جن کا کہنا تھا کہ قبل از وقت مو ت کے اس خطرے پر کی جانے والی اس تحقیق میں زیادہ دیر تک ٹیلی ویژن دیکھنے کے علاوہ زندگی کے لیے خطرے کے دوسرے عوامل کو شامل نہیں کیا گیا تھا، مثلاً خون کا دباؤ، کولسٹرول کی سطح، خوراک، ورزش اور تمباکو نوشی وغیرہ۔
پروفیسر ڈنسٹن کہتے ہیں کہ ٹیلی ویژن کے سامنے صوفے پر بہت زیادہ دیر تک بیٹھے رہنا صحت کے لیے نقصان دہ ہوسکتاہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس مطالعاتی جائزے سے پہلی بار ٹیلی ویژن دیکھنے اور قبل از وقت موت کے خطرے میں اضافے کے درمیان کسی تعلق کے واضح شواہد سامنے آئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ روزانہ چار گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت تک ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں، ان میں دوسرے عوامل سمیت، جلد مرنے کا خطرہ 46 فی صد زیادہ ہوتا ہے۔ اور دل کی بیماری میں مبتلا افراد میں ایسی صورت میں جلد ہلاک ہونے کا خطرہ 80 فی صد تک بڑھ جاتا ہے۔
آسٹریلیا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مناسب ورزش نہ کرنے اور بہت زیادہ دیر تک بیٹھے رہنے کے درمیان ایک فرق ہے جو ان کے خیال میں جسم کے قدرتی معمولات، مثلاً خوراک میں موجود گلوکوز کو الگ کر کے اسے استعمال کرنے کے عمل کو متاثر کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی اور معاشرتی اور اقتصادی تبدیلیوں کے نتیجے میں لوگ اب اپنے جسمانی پٹھوں کو اتنا زیادہ استعمال نہیں کر رہے جتنا کہ پہلے کیا کرتے تھے۔
دوسرے متمول ملکوں کی طرح آسٹریلیا میں بھی موٹاپے میں مبتلا بچوں اور بالغ افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ آسٹریلیا کے تقریباً 70 فی صد مرد وزن کی زیادتی یا فربہی کا شکار ہیں، جب کہ کل خواتین میں سے تقریباً نصف کا وزن طبی ماہرین کے تجویز کردہ محفوظ وزن سے زیادہ ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ آسٹریلیا کے تقریباً ایک چوتھائی بچے وزن کے مسائل میں مبتلا ہیں۔
کچھ ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ نوعمر بچوں کی یہ موجود نسل تاریخ کا وہ پہلا گروپ بن سکتی ہے جو موٹاپے کی بڑھتی ہوئی سطح کے باعث اپنے والدین کی نسبت کم عرصہ زندہ رہے گی، کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ موٹاپا، ذیابیطس، دل کی بیماری اور صحت کی دوسری بہت سی پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے۔
صحت کی نگہداشت سے متعلق تنظیمیں حکومت پر زور دے رہی ہیں کہ وہ خاندانوں کے لیے نئے راہنما ضابطے فوری طور پر جاری کرے جن سے نوعمر افراد کو ٹیلی ویژن اور کمپیوٹروں کا استعمال کم کرنے کی ترغیب مل سکے۔
مقبول ترین
1